عنوان: | فرعون اور ابلیس |
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
کبھی سوچا ہے؟ ابلیس جیسا عابد، جس نے ہزاروں برس سجدے کیے، صرف ایک لمحہ کی سرکشی نے اُسے شیطان بنا دیا۔ اور فرعون؟ جس نے خدائی کا دعویٰ کیا، صرف دنیا کی طاقت و اقتدار نے اسے عقل سے محروم کر دیا۔
اور ہم؟ نہ ہم ابلیس جتنے ساجد، نہ فرعون جتنے طاقت ور۔ پھر بھی ہم ہر روز اللہ کو بھولے بیٹھے ہیں۔ ہر دن ہم گناہ کے ایک نئے جال میں پھنسے ہوتے ہیں۔
جب ابلیس نے فرعون سے کہا: میں اتنے کمالات کے باوجود راندۂ درگاہ ہو گیا، اور تو اپنی جہالت کے ساتھ خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے؟ تو یہ صرف فرعون کے لیے نہیں، آج کی دنیا کے ہر اُس انسان کے لیے ایک آئینہ ہے جو تکبر، گناہ، فریب، یا شہوت میں مبتلا ہے۔
آج ہم فرعون کی طرح اپنی دولت پر نازاں، اپنی شکل پر مغرور، اپنے علم پر فخر کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک وائرس، ایک دھچکا، ایک خبر ہماری ساری طاقت کو زمیں بوس کر دیتی ہے۔
کیا تمہیں نہیں لگتا کہ آج ہم سب کے دل میں ایک چھوٹا سا فرعون بیٹھا ہے؟ جو کہتا ہے: مجھے میرے رب کی ضرورت نہیں۔ مجھے کوئی نہ روک سکتا ہے۔ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں۔ اور جب ہم گناہوں کو خوب صورت سمجھنے لگیں، جب ہم بے حیائی کو فیشن اور توبہ کو کمزوری سمجھیں، تو جان لو! ہم اس ابلیس کے نقش قدم پر چلنے لگے ہیں، جس نے غرور کیا، عقل تھی مگر بندگی نہ تھی۔
ہمارے سوشل میڈیا کے پوسٹس، ہمارے لباس، ہماری گفتگو، ہماری نظریں۔ سب کچھ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں: ہم اللہ کو بھول چکے ہیں! اور جب انسان اللہ کو بھول جاتا ہے، تو اللہ بھی اُسے خود اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔
تم آج بے فکر ہو کر گناہ کر رہے ہو، کل جب موت تمہیں لپکے گی، تو نہ تمہارا فالوور کام آئے گا، نہ دوست، نہ بیوٹی فلٹر۔ ابلیس کی طرح جادو آتا ہو یا فرعون کی طرح دنیا کی طاقت، اگر بندگی نہ ہو، تو سب راکھ ہے، سب بیکار ہے۔ اے دل! جھک جا، رُک جا، توبہ کر لے! کیوں کہ جو جھک گیا، وہی بچ گیا۔ اور جو اَڑ گیا، وہ گِر گیا۔
اگر آپ کے دل نے بھی اس آئینے میں اپنا چہرہ پہچانا، تو آج ہی سے خود کو بدلیے۔ فرعون اور ابلیس کی یہ کہانی صرف ماضی کی حکایت نہیں، بلکہ ہماری آج کی حالت کا عکس ہے۔