دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

پڑھائی کو شوق بنائیں بوجھ نہیں (نور نسل قسط: 2)

عنوان: پڑھائی کو شوق بنائیں بوجھ نہیں (نور نسل قسط: 2)
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

چار سال کا ایک بچہ ہے۔ آنکھوں میں حیرت، دل میں دنیا کو سمجھنے کی بےتابی۔ وہ اپنی ماں کو دن بھر دیکھتا ہے۔ کبھی موبائل کی اسکرین پر مصروف، کبھی کسی کام میں الجھی، اور جب بات آتی ہے پڑھائی کی، تو چیخ، ڈانٹ، زبردستی۔ بچہ سیکھتا ہے، مگر کیا؟ یہ کہ کتاب کا مطلب ہے ڈر، کہ قلم کا مطلب ہے بوجھ، کہ پڑھائی کا مطلب ہے ضد اور سزا۔ پھر وہ کیسے سیکھے گا؟ کیسا تعلق بنے گا علم سے؟ محبت کا یا نفرت کا؟

تعلیم کبھی زبردستی سے نہ پروان چڑھتی ہے نہ دل میں اترتی ہے۔ بلکہ وہ تو نرم زمین مانگتی ہے۔ دل کی وہ زمین جو صرف محبت، مثال، اور نرمی سے نرم ہوتی ہے۔ یہی تو وہ تعلیم تھی جو نبی اکرم ﷺ نے ہمیں سکھائی، جو قرآن نے ہمیں بارہا سمجھائی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا (النساء:5)

ترجمۂ کنز الایمان: اور بے عقلوں کو ان کے مال نہ دو جو تمہارے پاس ہیں جن کو اللہ نے تمہاری بسر اوقات کیا ہے اور انہیں اس میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو۔

یہی اصول نبی ﷺ نے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اپنایا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

خَدَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، فَوَ اللَّهِ مَا قَالَ لِي أُفٍّ قَطُّ، وَلَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ: لِمَ فَعَلْتَ كَذَا؟ أَلَا فَعَلْتَ كَذَا؟ (البخاری: 6038)

ترجمہ: میں نے دس سال نبی کریم ﷺ کی خدمت کی، کبھی آپ نے اُف تک نہ کہا، نہ یہ فرمایا: یہ کیوں کیا؟ یا یوں کیوں نہ کیا؟

یہ نرمی، یہ خاموش تربیت ہی بچوں کو جیتنے کا راستہ ہے آج اگر ہم دیکھیں تو ہر ماں پریشان ہے کہ اس کا بچہ پڑھائی سے کیوں بھاگتا ہے؟ اسے سبق یاد کیوں نہیں ہوتا؟ مگر شاید ہم نے خود ہی اس کے دل میں کتاب سے ڈر اتارا ہوتا ہے۔ کبھی ٹیچر کا ڈر، کبھی نمبر کا بوجھ، کبھی مقابلے کا طعنہ۔ پھر وہ بچہ جو صرف مسکرانے پر سیکھ سکتا تھا، اب ڈر کے مارے آنکھیں چرا کر بیٹھا ہوتا ہے۔

کامیاب تربیت صرف الفاظ سے نہیں، بلکہ عمل سے، رویے سے، ماحول سے ہوتی ہے۔ ایک بار ایک ماں نے بتایا کہ اس کا تین سالہ بچہ کسی حال میں بیٹھ کر کچھ نہ لکھتا تھا۔ نہ پنسل پکڑتا، نہ رنگ بھاتا۔ ماں نے کہا: میں نے روز خود ایک صفحہ کھولا، قلم لیا، کچھ لکھا، رنگ بھرا، اور خاموش رہی۔ نہ کچھ کہا، نہ مجبور کیا۔ بچہ آہستہ آہستہ نزدیک آنے لگا۔ پہلے صرف دیکھتا، پھر ہاتھ لگانے لگا، پھر ایک دن کہنے لگا: امی، مجھے بھی دے دو۔ بس، وہ دن شروعات کا دن تھا۔

یہی وہ طریقہ ہے جو نبی ﷺ نے اپنایا۔ آپ بچوں کے ساتھ بیٹھتے، ان سے بات کرتے، کھیلتے، کبھی نصیحت دیے بے غیر دل بدل دیتے۔

بچوں کو کتاب سے محبت دلانا ہو تو پہلے ماں کو کتاب سے محبت دکھانی ہوگی۔ اگر ماں دن میں چند لمحے پڑھنے میں گزارے، اگر وہ علم سے شغف کا اظہار کرے، تو بچہ خود ہی سوال کرے گا، خود ہی پڑھنے کی کوشش کرے گا۔

پھر استاد کا کردار آتا ہے۔ نبی ﷺ جب کسی بچے کو پڑھاتے، تو نہ صرف الفاظ دیتے، بلکہ شعور دیتے، مقام دیتے۔ جیسے ایک بچہ صحابی نے کہا:

كُنتُ غُلَامًا فِي حِجْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ لِي: يَا غُلَامُ، سَمِّ اللَّهَ، وَكُلْ بِيَمِينِكَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ (البخاری: 5376)

ترجمہ: میں بچپن میں رسول اللہ ﷺ کی گود میں تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے بچے! اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔

کتنی مختصر، پیاری، اور موثر تعلیم! آج ہمیں دوبارہ وہی طریقہ اپنانا ہوگا۔ بچوں کو ادب، علم، وقت، اور عزت دیں۔ تو وہ علم کے دیوانے بنیں گے۔ ورنہ اگر ہم انہیں ہر وقت موبائل، چیخ، موازنہ، یا طعنہ دیں گے، تو وہ نہ ماں کے قریب ہوں گے، نہ کتاب کے۔ وہ صرف بچیں گے۔جسمانی طور پر موجود، مگر ذہنی طور پر دور۔ علم زبردستی سے نہیں، محبت سے دیا جاتا ہے۔ محبت موجود ہو تو بچہ مٹی سے سونا نکال لیتا ہے۔ محبت نہ ہو تو سونا بھی مٹی ہو جاتا ہے۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔