| عنوان: | عالم دین کا مرتبہ |
|---|---|
| تحریر: | کنیز تاج الشریعہ مصباح رضویہ |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
علم وہ متاع حیات ہے جس کا مقام و مرتبہ اہل دنیا کے یہاں مسلم ہے، اس کے بے غیر زندگی ادھوری ہے، اس کے بنا جینا بے مزہ ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ادیان و مذاہب نے علم کو خاص اہتمام و انتظام کے ساتھ بیان کیا ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو دنیا میں حقیقی ترقی اس کے بے غیر ناممکن ہے، عزت و شہرت، مال و دولت اور شان و شوکت تک میں علم کا بڑا کردار ہے، دنیا کی لذتیں اور زندگی کی آسائشیں اسی سے وابستہ ہیں۔
لوگ علم والے کو ہوشیار اور علم سے محروم شخص کو بیوقوف گردانتے ہیں، یہ تو علم کے تعلق سے عمومی بات ہو گئی، لیکن جب ہم اسلام کے نظریہ سے علم کی بات کرتے ہیں تو یہاں اس کی شان ہی نرالی ہے، اسلام نے اس کو جو حیثیت دی ہے وہ بے مثال ہے، دنیا میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا دین نہیں ہے جس نے علم کے مقام کو اتنا بلند کیا ہو، اور سب سے بڑی بات کے عالم دین کی تعظیم و توقیر میں اللہ تبارک و تعالی نے کئی ساری آیتیں ارشاد فرمایا ہے۔
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی ساری احادیث بیان فرمائی ہیں، ایسی آیات تو بہت ہیں جو علم، فکر، تدبر، غور و خوض، دلائل و براہین، وغیرہ کے حوالے سے کلام کرتی ہیں۔ ان سب کا مقصود علم اور اس کے ذرائع شعبوں کی تحسین ہے۔ کیوں کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیا وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے، وہ اپنے پیچھے علم چھوڑتے ہیں۔ جس شخص نے بھی اس علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑی چیز حاصل کر لی۔
عالمِ دین کی تعریف
شریعت کی اصطلاح میں، عالم وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور احکامات کا علم ہو، یعنی وہ علمِ کلام، تفسیر، حدیث اور فقہ میں رسوخ رکھتا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ شرک سے پاک ہو، حلال و حرام کی تمیز رکھتا ہو اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو۔
عالم دین کی توقیر میں قرانی آیت
قُلْ ھل یسْتَوِی الَّذِینَ یعْلَمُوْنَ وَالَّذِینَ لَا یعْلَمُوْنَ۔ (الزمر۳۹:۹)
ترجمہ کنز الایمان: ان سے پوچھو کیا جاننےوالے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟‘
يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ أُوْتُوْا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ۔ (مجادلہ:28)
ترجمہ کنز الایمان : تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا، اللہ ان کے درجے بلند کرے گا۔
اس آیت میں ایمان اور علم دونوں کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے اور علم رکھنے والوں کو بلند درجہ عطا ہونے کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔
وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ۔ (عنکبوت:۴۳)
ترجمہ کنز الایمان: اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ یہ آیت غور و فکر کی اہمیت اور اس کے ذریعے علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
عالمِ دین کی فضیلت پر فرامینِ مصطفیٰ
حضر ت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں ، حضو ر پُر نو ر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی با رگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عالم تھا اور دوسرا عبادت گزار ، تو حضو ر اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی پر ہے پھر سر کا ر دوعالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرما یا: اللہ پاک ، اس کے فر شتے ، آسمانو ں اور زمین کی مخلوق حتی کہ چیو نٹیا ں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیا ں، لوگوں کو دین کا علم سکھا نے والے پر درود بھجتے ہیں۔ (ابن ماجہ:۲۲۹)
حضرت سیدنا اِبنِ عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے ، اللہ پاک کے آخرنبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ایک فقیہ (یعنی عالم) ایک ہزار عابدوں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے۔ (ابن ماجہ: ۴۴۵ )
حضرت ابودرداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو شخص علم کی طلب میں کوئی راستہ چلے گا تو اللہ پاک اسے جنّت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلائے گا اور بے شک فرشتے طالبِ علم کی خوشی کے لیے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اور بے شک عالم کے لئے آسمانوں و زمین کی تمام چیزیں اور پانی کے اندر مچھلیاں مغفرت کی دعا کرتی ہیں اور یقیناً عالم کی فضیلت عابد کے اوپر ایسی ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور بےشک علما انبیائے کرام علیہمُ السّلام کے وارث ہیں اور انبیا نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہ بنایا انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا۔ (ابوداؤد:۲۱۰)
جب ہمارے رب کے ہاں علمائے کرام کا مرتبہ اتنا اعلى و افضل ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ہر لمحے اپنے علمائے کرام کا ادب و احترام کریں، تاکہ ہم ان سے فیض حاصل کر کے اپنے خالق و مالک سے اپنا تعلق مضبوط کر سکیں کہ يقيناً علمائے کرام الله پاک کے مقرب اور محبوب ترین بندوں میں سے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ارشاد ہوا: اے ابراہیم!میں علیم ہوں، ہر علیم کو دوست رکھتا ہوں یعنی علم میری صفت ہے اور جو میری اس صفت پر ہے وہ میرا محبوب ہے۔ (فيضان علم و علما، صفحہ نمبر:۲۰)
علماء کی عظمت
اللہ تعالی نے اپنی ذات کی گواہی کے ساتھ علماء کی گواہی کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی جو پوری کائنات کا پالنہار ہے، ساری مخلوقات کا خالق و مالک ہے،اس کی ذات اتنی عظیم ہے، اس کے باوجود اللہ نے تذکرہ میں اپنی گواہی کو اہل علم کی گواہی سے ملایا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ علماء اپنے رب کی نگاہ میں عظیم ہیں۔
دیکھا آپ نے!قرآن و احادیث کس خوبصورت انداز میں علمائے حق کے فضائل بیان فرمارہے! تو ما وشما کیا چیز کہ علمائے حق کے بارے میں کسی بھی طرح کی کمزور بات کریں! اللہ پاک سے دعا کہ ہمیں علمائے اہلِ سنت کا ہر آن ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
