عنوان: | اتحاد و اختلاف |
---|---|
تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
انسانی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے اتحاد کا دامن تھاما، وہ ترقی، کامیابی اور عزت کی بلندیوں پر پہنچی، اور جب کسی قوم نے آپس کے اختلافات کو اپنا شعار بنایا، تو وہ ذلت، پستی اور ناکامی کا شکار ہوئی۔ اتحاد اور اختلاف، یہ دو ایسے راستے ہیں جو قوموں کی تقدیر کا تعین کرتے ہیں؛ ایک روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور دوسرا اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔
اتحاد (Unity) ایک ایسی طاقت ہے جو لوگوں کو ایک مقصد کی طرف مل کر کام کرنے میں مدد دیتی ہے اور کامیابی کی راہ کو آسان بناتی ہے۔ جب لوگ اتحاد میں رہتے ہیں، تو ان کی اجتماعی صلاحیتیں اور قوت، سوچ و فکر ایک مضبوط دیوار کی مانند ہوتی ہیں، جسے توڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جب لوگ متحد ہوتے ہیں، تو ان کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ مل کر بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں، کسی بھی رکاوٹ کو دور کر سکتے ہیں، اور بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
اتحاد کا مطلب ہے:
آپس میں ہم آہنگی، یگانگت، یکجہتی اور ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون۔ جب افراد، خاندان، قوم یا ملت اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ایک اعلیٰ مقصد کے لیے متحد ہوتے ہیں تو وہ ایک ایسی قوت بن جاتے ہیں جسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪ (آل عمران: 103)
ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ بٹ جانا)
یہ آیت ہمیں اتحاد کی دعوت دے کر یہ بتاتی ہے کہ ملتِ اسلامیہ کی بقا اور عروج، صرف اتحاد و اتفاق میں پوشیدہ ہے۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ اس اتحاد کی عملی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺ نے مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارے کا رشتہ قائم کیا، جس سے اسلام کو وہ مضبوط بنیاد ملی جس پر پوری اسلامی تہذیب کی عمارت کھڑی ہوئی۔
قارئین کرام! جس طرح اتحاد اور یکجحتی کے کثیر فوائد ہیں، اسی طرح اختلاف کے نقصانات بھی دیکھنے ملتے ہیں۔ اختلاف کی وجہ سے دلوں میں نفرت، کینہ اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے اس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بجائے نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔
اختلاف سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔ اختلافات کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اصل مقصد سے ہٹ جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں لگ جاتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرتے اور بکھر جاتے ہیں۔ یوں ترقی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ (الأنفال: 46)
ترجمہ کنزالایمان: اور آپس میں جھگڑو نہیں کہ پھر بزدلی کرو گے اور تمہاری بندھی ہوئی ہوا جاتی رہے گی۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اور اس آیت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ تمام معاملات میں خصوصاً جہاد اور دشمن سے مقابلے کے وقت ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کریں اور باہمی اختلافات سے بچیں جیساکہ اُحد میں بعض مسلمانوں نے بعض کی مخالفت کی، کیونکہ باہمی تَنازع ضعف و کمزوری اور بے وقاری کا سبب ہے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۲۰۰، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۶، ۵ / ۴۸۹، ملتقطاً)
آج امتِ مسلمہ جس زوال، کمزوری اور ذلت کا شکار ہے، اس کی بڑی وجہ آپسی اختلافات، فرقہ واریت، اور افتراق ہے۔ ہر شخص خود کو نمایاں کرنا چاہتا ہے، ہر گروہ اپنی پہچان کا علم بلند کیے ہوئے ہے، جب کہ دشمن متحد ہو کر اسلام پر فکری، معاشی اور ثقافتی حملے کر رہا ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم سب اپنے اندر پائی جانے والی انانیت، فرقہ واریت، اور نام و نمود کی خواہش کو ختم کریں، اور دل سے یہ عہد کریں کہ ہم صرف دینِ اسلام کے دفاع کے لیے متحد ہو کر کام کریں گے۔ باہمی انتشار کو ختم کر کے، اخلاص کے ساتھ، ایک صف میں کھڑے ہو کر اسلام پر ہونے والے ہر اعتراض اور ہر فتنے کا مضبوط، مدلل اور دلائل شکن جواب دیں گے۔ یہی اتحاد، یہی یکجہتی، ہماری کامیابی کی کنجی ہے۔ اسی میں امت کی بقا اور دین کی سرفرازی ہے۔
ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں