دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

نمازی کہلانے والا شخص برائی کا شکار کیوں؟

عنوان: نمازی کہلانے والا شخص برائی کا شکار کیوں؟
تحریر: محمد طارق القادری بنارسی

00:00 00:00


نماز ایک ایسی عبادت ہے جو تمام فرائض اسلام میں سب سے زیادہ فضیلت اور فوقیت کی حامل ہے جو نہ صرف اپنے عامل کو ثواب کا مستحق بناتی بلکہ اسے ہر قسم کی برائی اور بے حیائی سے بھی بچاتی ہے۔

جیسا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے پاکیزہ کلام قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا:

وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ (العنکبوت: 45)

ترجمہ کنز العرفان: اور نماز قائم کرو، بیشک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے۔

مفسر قرآن مفتی اہلسنت مفتی قاسم عطاری دام ظلہ علینا تحریر فرماتے ہیں:

آیت میں بیان ہوا کہ نماز بے حیائیوں اور بری باتوں سے روکتی ہے، لہٰذا جو شخص نماز کا پابند ہوتا ہے اور اسے اچھی طرح ادا کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ ان برائیوں کو ترک کر دیتا ہے جن میں مبتلا تھا۔ (صراط الجنان، تحت الآیۃ)

(1) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:

إنَّ فتى من الأنصارِ كانَ يصلِّي مع رسول الله ﷺ ثمَّ لا يدع شيئًا من الفواحِش إلا ركبَهُ فوصف له ﷺ حاله فقال إنَّ صلاتَه ستنهاهُ فلم يلبثْ أن تابَ وحسُنَ حالُه. (ابو سعود، العنکبوت، تحت الآیۃ: 45، 7/42)

ترجمہ: ایک انصاری جوان سرکارِ دوعالم صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا اِرتکاب کرتا تھا، حضور پُر نور صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا: اس کی نماز کسی دن اسے اِن باتوں سے روک دے گی۔ چنانچہ کچھ ہی عرصے میں اس نے توبہ کر لی اور اس کا حال بہتر ہو گیا۔

(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا يُصَلِّي بِاللَّيْلِ، فَإِذَا أَصْبَحَ سَرَقَ قَالَ: إِنَّهُ سَيَنْهَاهُ مَا تَقُولُ (مسند احمد بن حنبل: 9778)

ترجمہ: ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: فلاں آدمی رات میں نماز پڑھتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا: عنقریب نماز اسے اس چیز سے روک دے گی جو تو کہہ رہا ہے۔

سوال: پھر نمازی بے حیائی کا شکار کیوں؟

اب ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن و حدیث کے فرمان کے مطابق نماز بے حیائی اور بری باتوں سے بچاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ آج جب ہم اپنے معاشرے کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو نمازیں تو ادا کرتے ہیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ وہ بد نگاہیاں بھی کرتے ہیں جھوٹ بھی بولتے ہیں چغلی بھی کھاتے ہیں ایک دوسرے کی غیبت بھی کرتے پھرتے ہیں حرام مال بھی کماتے اور کھاتے ہیں دوسرے مسلمان کو تکلیف بھی دیتے ہیں۔

تو کیا وجہ ہے کہ قرآن و حدیث تو یہ کہہ رہے ہیں کہ نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے جبکہ معاشرے میں نمازی کہلانے والے افراد بھی بے حیائی اور بری باتوں میں ملوث ہیں تو کیا قرآن وحدیث کی بات غلط ہے؟

اس کا جواب یہ ہے :

اللہ و رسول کا فرمان حق ہے کہ نماز بے حیائی اور بری باتوں سے بچاتی ہے لیکِن وہ لوگ جو نمازیں بھی ادا کرتے ہیں اور بے حیائی اور بری باتوں کے شکار بھی ہیں اگر ہم ان کی نمازوں کا جائزہ لیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جس طرح اللہ و رسول نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اس سے ان لوگوں کی نماز کوسوں دور ہے یعنی جس طرح نماز پڑھنے کا حکم ہے اس طرح وہ نماز ادا ہی نہیں کرتے چاہے وہ علم نا ہونے کی بنیاد پر ہو یا پھر اپنی کوتاہی کی بنیاد پر ہو۔

نماز کا معیار:

جب لوگوں کی نمازوں کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہیں نماز کے وہ بنیادی مسائل جن کے بغیر نماز مکمل ہوتی ہی نہیں جیسے نماز کے شرائط و فرائض اور واجبات و مفسدات وغیرہ معلوم ہی نہیں، اب جس بندے کو نماز کے بنیادی مسائل ہی معلوم نہ ہوں تو وہ کیسے اپنی نمازیں صحیح طریقے پر ادا کر پائے گا۔

جیسے گاڑی کہ اس کے فی نفسہ تو بہت سارے فائدے ہیں لیکن اگر کوئی شخص ڈرائیونگ سیکھے بغیر گاڑی چلانا شروع کر دے تو اب اسے اس کے فائدے حاصل ہونے کے بجائے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں؟ کیونکہ اس نے کبھی گاڑی چلانا سیکھا ہی نہیں جس کے سبب وہ اس کے فوائد سے محروم رہا، لہٰذا اب کوئی کہنے والا یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ گاڑی کے فوائد ہیں ہی نہیں بلکہ ہیں لیکن اسے حصول کا طریقہ معلوم نہیں ہے۔

اسی طرح نماز بھی فی نفسہ بے حیائی اور برائی سے روکنے والی ہے لیکن اگر کوئی شخص اسے بغیر سیکھے ادا کرے تو اسے اس کے فوائد نہیں بلکہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیوں؟ کیونکہ اس نے کبھی اسے سیکھا ہی نہیں۔ اور جو نماز اپنے حقوق کے ساتھ ادا نہ کی جائے وہ نماز بندے کے لیے نفع بخش اور برائی و بے حیائی سے روکنے والی نہیں ہو سکتی، بلکہ ایسی نماز در حقیقت نماز ہی نہیں۔

(1) حضرت سیدنا حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جس کی نماز اس کو بے حیائی اور ممنوعات سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں۔ (درمنثور، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۶۶)

(2) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ لَمْ تَنْهَهُ صَلَاتُهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ، لَمْ يَزْدَدْ مِنَ اللهِ إِلَّا بُعْدًا (المعجم الکبیر، حدیث: 11025)

ترجمہ:

جس شخص کو اس کی نماز بے حیائی اور برائی سے نہ روکے تو اسے اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا (کیونکہ اس کی نماز ایسی نہیں جس پر ثواب ملے بلکہ وہ نماز اس کے حق میں وبال ہے اور اس کی وجہ سے بندہ عذاب کا حق دار ہے۔)

نماز کے عمومی نقائص:

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فیضان نماز میں رقم طراز ہیں: کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: لوگ نماز میں اس طرح سجدہ کرتے ہیں کہ پاؤں کی انگلیوں کے صرف سرے زمین پر لگتے ہیں حالانکہ حکم ہے کہ پیٹ لگے ایک انگلی کا پیٹ (یعنی وہ حصہ جو چلنے میں زمین پر لگتا ہے) لگنا فرض اور ہر پاؤں کی اکثر مثلاً تین تین انگلیوں کا پیٹ زمین پر جمنا واجب ہے۔

اور دسوں کا پیٹ لگ کر انگلیوں کا قبلہ رو ہونا سنت ہے صرف ناک کی نوک پر سجدہ کرتے ہیں حالانکہ حکم یہ ہے کہ جہاں تک ہڈی کا سخت حصہ ہے، لگنا چاہیے۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ رکوع سے ذرا سر اٹھایا پھر سجدے کی طرف چل گئے، اور سجدے سے ایک بالشت سر اٹھایا یا بہت ہوا ذرا مزید اٹھا لیا اور وہیں دوسرا سجدہ ہو گیا! حالانکہ کہ رکوع کے بعد پورا سیدھا کھڑا ہونا اور دو سجدوں کے درمیان کم از کم ایک بار 'سبحان اللہ' کہنے کی مقدار پورا بیٹھنا چاہیے۔

اس طرح اگر 60 برس بھی نماز پڑھے گا قبول نہ ہوگی۔ ایک شخص مسجد اقدس میں حاضر ہوئے اور بہت تیزی سے جلدی جلدی نماز پڑھی بعد نماز حاضر ہو کر سلام عرض کیا۔ فرمایا: وعليك السلام، ارجع فصَلِّ فإنك لم تصلِّ یعنی واپس جا پھر پڑھ کہ تو نے نماز نہ پڑھی۔ انہوں نے دوبارہ ویسے ہی پڑھی، پھر یہی ارشاد ہوا۔ آخر میں انہوں نے عرض کی قسم اس ذات کی جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ بھیجا، مُجھے ایسی ہی آتی ہے، حضور فرمائیں کس طرح پڑھوں؟ فرمایا: رکوع سجود باطمنان کرو اور رکوع سے سیدھا کھڑا ہو اور دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھ۔ (فیضانِ نماز، ص41)

لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نمازیں ہمیں بے حیائی اور برائی سے روکیں تو ہمیں بزرگان دین کی طریقے پر نماز ادا کرنی ہوگی، کیونکہ ان کی نمازیں ایسی ہوا کرتی تھیں جو انہیں ہر قسم کی برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھا کرتی تھیں، چند بزرگان دین کے واقعات ملاحظہ کیجیے:

نماز کے اثرات بزرگان دین کی زندگی میں:

(1) جب نماز کا وقت آتا تو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم پر کپکپی طاری ہو جاتی اور چہرے کارنگ بدل جاتا۔ عرض کی جاتی: اے امیر المؤمنین! آپ کو کیا ہوا؟ فرمایے: ایسا وقت آیا ہے جو امانت ہے۔ اس امانت کو اللہ عزوجل نے زمین وآسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور ڈر گئے جبکہ میں (یعنی ابنِ آدم) نے اسے اٹھا لیا۔ (احیاء العلوم، ج:1، ص:522، فصل سادس، مکتبۃ المدینہ)

(2) امام زین العابدین حضرت سیدنا علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب وضو کرتے تو چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ اہل خانہ کہتے: وضو کرتے وقت آپ پر کس چیز کا خوف طاری ہو جاتا ہے؟ فرماتے: کیا تم جانتے ہو میں کس کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ (احیاء العلوم، ج:1، ص:523، فصل سادس، مکتبۃ المدینہ)

(3) حضرت حاتم اصم رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ سے کسی نے ان کی نماز کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: جب نماز کا وقت قریب آتا ہے تو میں کامل وضو کرتا ہوں پھر جس جگہ نماز پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے وہاں آکر بیٹھ جاتا ہوں یہاں تک کہ میرے اعضاء جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ تصور باندھ کر نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں کہ کعبۃ اللہ المشرفۃ میرے سامنے، پل صراط پاؤں تلے، جنت میرے دائیں جانب، جہنم میرے بائیں طرف اور ملک الموت علیہ السلام میرے پیچھے ہیں اور گمان کرتا ہوں کہ یہ میری آخری نماز ہے۔ پھر امید و خوف کی درمیانی حالت میں ہوتا ہوں۔ پھر حقیقتاً تکبیر تحریمہ کہتا، ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرتا، عاجزی کے ساتھ رکوع اور خشوع کے ساتھ سجدہ کرتا ہوں۔ پھر دائیں پہلو پر قعدہ کرتا اور بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتا ہوں اور دائیں پاؤں کو انگوٹھے پر کھڑا کرتا ہوں۔ پھر اخلاص سے کام لیتا ہوں۔ اس کے بعد میں نہیں جانتا کہ میری نماز قبول ہوتی ہے یا نہیں۔ (احیاء العلوم، ج:1، ص:524، فصل سادس، مکتبۃ المدینہ)

قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ آج ہماری نمازیں ہمیں برائیوں سے نہیں روک رہی ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی نمازوں کو فقط رسمی عبادت سمجھ کر نہیں بلکہ بزرگان دین کے پیروی میں تمام آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی عبادت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں