عنوان: | حضور اکرم ﷺ بحیثیتِ شوہر |
---|---|
تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت شوہر اور بیوی کا رشتہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس کی بیوی کا، اور عورت کو اس کے شوہر کا لباس قرار دیا۔ مرد ہو یا عورت، دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے بغیر بے رنگ ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے سکون کا باعث ہیں۔ لیکن یہ سکون تب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے والے اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کرنے والے ہوں۔
دیکھا جائے تو دورِ حاضر میں انسانی زندگی میں بے سکونی کی ایک بڑی وجہ گھریلو مسائل ہیں۔ کہیں بیوی میں برداشت کی قوت نہیں، تو کہیں شوہر حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان جو حقوق و ذمّہ داریاں عائد ہیں، وہ صرف اخلاقی نہیں بلکہ شرعی اور قانونی حیثیت رکھتی ہیں۔ قانونی تقاضا سمجھ کر حقوق ادا کرنے سے اگرچہ ذمہ داری تو پوری ہو جائے گی، مگر باہمی محبت کا وہ تعلق پیدا نہیں ہوسکے گا جو ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے ضروری ہے۔
شریعت کے مطابق مرد کو گھر کی سربراہی عطا کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ (النساء: ۳۴)
ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی، اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے۔
مرد کو چاہیے کہ وہ اپنے مرتبے کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کرے۔ اس آیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مرد عورت پر ظلم و جبر کرے یا بد اخلاقی کا رویہ اپنائے اور یہ سمجھ لے کہ اس پر عورت کے کوئی حقوق نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أكمل المؤمنين إيماناً أحاسنهم أخلاقاً، وخياركم خياركم لنسائهم (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، باب عشرة النساء، حدیث: 3264)
ترجمہ: ایمان میں سب سے کامل وہ مومن ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے حق میں سب سے بہتر ہو۔
لہٰذا مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ حضورِ اکرم ﷺ کی خانگی زندگی کو اپنے لیے نمونہ بنائے۔ آپ ﷺ اللہ کے محبوب، تمام اوّلین و آخرین میں اعلیٰ، اور کمالاتِ انسانی کے جامع تھے۔ حسنِ معاشرت، عدل، حلم، وفا، سخاوت، صبر، اور ہر وصفِ عالی میں آپ ﷺ یکتا تھے، یہاں تک کہ دشمن بھی آپ کے اخلاق کا اعتراف کرتے تھے۔
حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
منزَّهٌ عن شريكٍ في محاسنهٖ
فجوهرُ الحسنِ فيه غيرُ منقسمِ
ترجمہ: حضور ﷺ اپنی خوبیوں میں ایسے یکتا ہیں کہ ان کا کوئی شریک نہیں، کیونکہ ان میں حسن کا جوہر ایسا ہے جو تقسیم ہو ہی نہیں سکتا۔
آپ ﷺ بحیثیتِ شوہر، والد، تاجر اور رہنما، ہر حیثیت سے کامل ترین نمونہ ہیں۔ ہر دور میں پیش آنے والی گھریلو پریشانیوں کا بہترین حل آپ ﷺ کی سیرت میں موجود ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ما رأيت أحداً كان أرحم بالعيال من رسول الله ﷺ (صحیح مسلم، باب رحمته ﷺ بالصبيان والعيال، 2316)
ترجمہ: میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ بیوی، بچوں پر رحم کرنے والا کوئی نہ دیکھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ مثالی سلوک فرمایا۔ آپ ﷺ نے نہ صرف ان کے حقوق کی ادائیگی کی بلکہ ان کی دلجوئی، رہنمائی اور محبت میں وہ مثالیں قائم کیں جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے راہِ ہدایت ہیں۔
عورت کو گھریلو کاموں کا ذمہ تو دیا گیا، اور اس پر اجر بھی رکھا گیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر حال میں اکیلی ہی گھر کے تمام بوجھ اٹھائے۔ عورت نازک فطرت رکھتی ہے، اور زندگی کے بعض مراحل جسمانی و ذہنی کمزوری کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں شوہر کا کردار محبت، تعاون اور فہم پر مبنی ہونا چاہیے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت سے ظاہر ہوتا ہے۔
حدیث شریف میں ہیں:
كانت صفيه مع رسول الله ﷺ في سفر وكان ذلك يومها فابطات في المسير فاستقبلها رسول الله ﷺ وهى تبكى وتقول حملتني على بعير بطئ فجعل رسول الله ﷺ يمسح بيديه عينيها ويسكتها (السنن الكبرى للنسائي كتاب عشرة النساء 9314)
ترجمہ: حضرت صفیہ ایک سفر میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھی، جو کہ ان کی باری کا دن تھا ان کی (سواری کی) رفتار سست تھی، رسول اللہﷺ ان کے پاس آئے، وہ رو رہیں تھی اور کہنے لگیں: اس نے مجھے سست رفتار اونٹ پر بٹھا دیا ہے، تب رسول اللہ ﷺ نے ان کے آنسو اپنے ہاتھ سے پونچھے اور ان کو خاموش کرایا۔
آج مرد حضرات گھر کے کاموں میں شریک ہونا معیوب سمجھتے ہیں، گھر کے کاموں میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹانے کو اپنی بے عزتی گمان کرتے ہیں، میں اُن سے پوچھنا چاہتی ہوں کیا کائنات میں سیّد عالم ﷺ سے زیادہ عزت و وقار کسی کو حاصل ہے؟ ہمارے آقاﷺ کی خانگی زِندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا آپ نہ صرف ازواجِ مطہرات کے کام میں انکی مدد کرتے بلکہ اپنے تمام امور خود سے سر انجام دیا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان يكون في مهنة أهله، فإذا سمع الأذان خرج (صحیح بخاری، باب خدمة الرجل في أهله، 5363)
ترجمہ: آپ ﷺ اپنے اہلِ خانہ کی خدمت میں مصروف رہتے، پھر جب اذان سنتے تو باہر تشریف لے جاتے۔
ایک اور حدیث میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا سقى الرجل امرأته الماء أجر (کنز العمال،: 16380)
ترجمہ: اگر شوہر اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اسے اجر دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں شوہر اگر بیوی سے محبت سے پیش آئے یا اس کے ساتھ نرمی برتے، تو اُسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہی تو سنتِ رسول ﷺ ہے، اور ہر سنت باعثِ اجر و ثواب ہے۔
اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اسے اجر دیا جاتا ہے غور کیجئے اگر کوئی شوہر سنت رسولﷺ سمجھ کر اپنی بیوی کی خدمت کرے، اس سے محبت کرے، ہر مشکل مرحلے پر اُسکی خیر خواہی کرے، گھر کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے، تو کیوں کر نا ثواب کا مستحق ہوگا۔
غالباً عورتیں بہت جذباتی ہوتی ہیں، شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے ہر جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرے، بیوی اگر ناراض ہو تو تو اس سے قطع کلامی کرنے کی بجائے اس کے من میں چھپے جذبات کو پہچاننے کی کوشش کرے، رسول اللہ ﷺ مزاج شناس تھے، ازواجِ مطہرات کے مزاج کو سمجھ کر اسی کے متعلّق معاملہ فرماتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم إني لأعلم إذا كنتِ عني راضية وإذا كنت عليّ غضبى... (صحیح بخاری، باب غيرة النساء، 4930)
ترجمہ: حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں میں جان لیتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض۔
اسلام قدم قدم پر فروغ محبت کا قائل ہے اور بیوی سے خوش دلی کے معاملات سے پیش آنا باہمی محبت کا سبب ہے۔ اپنی بیوی سے بات چیت کرنا، ان کو وقت دینا، ان سے اظہارِ محبّت کرنا، ان کا خیال رکھنا، گھر کے کاموں میں ان کی مدد کرنا، ان کے ساتھ نرم مزاجی سے پیش آنا، یہ سب حضورﷺ کے حسن معاشرت میں شامل تھا، اور اُمّت کو بھی آقاﷺ نے اپنی بیوی کے ساتھ اسی طرح کے نیک سلوک کا حکم دیا۔
حضورﷺ نے اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ کبھی سخت کلامی کا مظاہرہ نہیں فرمایا، دیگر مصروفات کہ باوجود حضورﷺ اپنی ازواج مطہرات کی دلجوئی کے لیے ان کو بھرپور وقت دیتے تھے، آپ اپنی ازواج سے بے تکلفانہ معاملات فرماتے، ان کے بال سنوارتے، ان کی گود میں سر رکھ کر آرام فرماتے، ان کو تفریح کی اجازت دیتے ،اپنی بیوی کو پیار کے نام سے پکارنا بھی آقاﷺ کی پیاری سنت مبارکہ ہے بعض اوقات آپ سیدہ عائشہ کو "حمیرا" کہہ کر مخاطب فرماتے، آپ اپنی ازواج کی تعریف بھی فرماتے۔
ازدواجی تنازعات کا ایک بڑا سبب عدم برداشت ہے غصے کے بے جا اظہار سے ازدواجی زندگی میں تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
ہر شوہر کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بیوی اس کی ملک نہیں وہ اللہ کی مخلوق اور اس کی ملک ہے، اور اللہ کے حکم اور اس کے نام پر ہی اس کے لیے حلال قرار دی گئی ہے، بیوی پر ظلم کرنا، اس کی نا قدری کرنا، سخت کلامی اختیار کرنا، ان کو مثل نوکرانی کے تصوّر کرنا، اسلام ان سب کی اجازت نہیں دیتا۔
بیوی کو غلام یا خادمہ نہ سمجھا جائے بلکہ اللہ کی امانت جان کر عزت دی جائے۔ نہ اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جائے اور نہ ہی سر کا تاج، بلکہ اُسے دل میں رکھا جائے، یہی اس کا اصل مقام ہے۔
ہمارے حضور ﷺ اپنی ازواج کے نان و نفقہ کا بھی خیال فرماتے، آپﷺ کبھی کھانے میں عیب نہ نکالتے، کھانا مرغوب ہوتا تو تناول فرما لیتے، اچّھا نہیں لگتا تو خاموش رہتے، آپﷺ اپنے لیے کوئی مخصوص بستر نہیں رکھتے تھے بلکہ ہمیشہ ازواج مطہرات کے بستروں پر ہی آرام فرماتے تھے، ہمارے آقاﷺ بہت نرم خو تھے حضرت عائشہ جب بھی کوئی خواہش کرتیں آپ ان کی بات مان لیتے، آپ اپنی ازواج کی تعلیم و تربیت بھی فرماتے۔
کثیر روایات ایسی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ اپنی ازواج سے والہانہ محبّت فرماتے، اور اس کا اظہار بھی کرتے۔
حضورﷺ بحیثیت شوہر تمام امّت مسلمہ کے لیے ایک بے مثال نمونہ ہیں۔ آپﷺ کی پوری خانگی کا ایک ایک واقعہ جیتی جاگتی نصیحت ہے۔
ہمارے معاشرے کی بیشتر گھریلو پریشانیاں ختم ہو سکتی ہیں اگر ہم سیرتِ نبوی ﷺ کو اپنی خانگی زندگی میں اپنا لیں۔
قارئینِ کرام! آئیے! ہم اپنی ازدواجی زندگی میں رسولِ پاک ﷺ کی تعلیمات کو نافذ کریں، یہی طریقہ محبت، سکون، اور کامیاب زندگی کا ضامن ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو سیرتِ رسول ﷺ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین