دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

حسد کیا ہے

عنوان: حسد کیا ہے
تحریر: سفینہ الحفیظ
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

حسد ایک ایسی باطنی بیماری ہے جو خاموشی سے انسان کے دل اور اعمال کو کھا جاتی ہے۔ یہ وہ زہر ہے جو نہ صرف دوسروں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ سب سے پہلے حسد کرنے والے کے ایمان، سکون اور برکت کو ختم کرتا ہے۔

حسد کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص کی نعمت، کامیابی، عزت یا خوشحالی کو دیکھ کر دل میں یہ خواہش پیدا ہونا کہ یہ چیز اس کے پاس نہ رہے، یا میرے پاس آ جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ (النساء: 54)

ترجمۂ کنزالایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ حسد کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ یہ اللہ کی عطا پر اعتراض کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حسد کے اثرات کو سمجھانے کے لیے ہمیں پناہ مانگنے کی دعا سکھائی:

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَۙ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِۙ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠ (الفلق: 1-5)

ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ میں اس کی پناہ لیتا ہوں جو صبح کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس کی سب مخلوق کے شر سے۔ اور اندھیری ڈالنے والے کے شر سے جب وہ ڈوبے۔ اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکتی ہیں۔ اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے۔

کوئی شخص اگر آپ کی کامیابی سے جلتا ہو لیکن صرف دل میں، تو اس وقت تک وہ آپ کو نقصان نہیں دے سکتا۔ لیکن جب وہ حسد کی آگ میں جل کر آپ کے خلاف باتیں کرے، سازش کرے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، تب یہ حسد کھلا ہوا شر بن جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ ہم اس وقت بھی اس کے شر سے پناہ مانگیں جب کوئی حسد کرنے والا حسد پر اُتر آئے۔

حسد کی پہلی مثال ابلیس کا تکبر

مفسرین نے لکھا ہے کہ حسد کی سب سے پہلی جھلک ہمیں کائنات کے آغاز ہی میں ملتی ہے۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ سجدہ کریں۔ سب نے اطاعت کی مگر ابلیس نے انکار کر دیا، کیونکہ اس کے دل میں حسد اور تکبر کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا :

قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ (الأعراف: 12)

ترجمہ کنزالایمان: بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔

تاریخی واقعات میں حسد کی مثالیں

پہلا قتل: دنیا میں سب سے پہلا قتل حسد کی وجہ سے ہوا جب حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔

حضرت یوسف علیہ السلام: ان کے بھائیوں نے حسد میں انہیں کنویں میں ڈال دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں: بعض یہود نے حسد میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کرنے کی کوشش کی۔

یہ تمام واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حسد انسان کے کردار اور ایمان کو برباد کر دیتا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو حسد سے ڈرایا اور اس کے سنگین نقصان سے آگاہ فرمایا:

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ (أبي داود: 4903)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسد سے بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا (المسلم: 2563)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو، ایک دوسرے کے ساتھ بغض نہ رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔

حسد کی پہچان

حسد ایک پوشیدہ آگ ہے، جو وقت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے: حاسد کی مسکراہٹ میں خلوص نہیں بلکہ طنز ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کی خوشی میں شریک ہونے کے بجائے اپنی تعریف میں مصروف رہتا ہے۔ وہ دوسروں کی کامیابی کو کمزور کرنے یا نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

حسد اور نظرِ بد سے بچنے کے اصول

اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کریں، نمائش نہ کریں۔ کامیابی کو فوراً ہر جگہ بیان نہ کریں۔ غیر ضروری تصویروں کا اشتراک نہ کریں۔ ذاتی زندگی کے راز سب کے ساتھ شیئر نہ کریں۔ عاجزی اور سادگی اختیار کریں۔ دوسروں کی کامیابی پر دعا کریں: مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ
ترجمہ کنزالایمان: اللہ نے چاہا، اللہ کے سوا کوئی طاقت نہیں۔
یہ یقین رکھیں کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

میں صرف اللہ سے یہ دعا نہیں کرتی کہ وہ مجھے حاسدین کے حسد سے محفوظ رکھے، بلکہ یہ بھی دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے خود حسد کرنے سے بچائے۔ میرا دل دوسروں کی نعمتوں کی طرف للچائے نہیں، بلکہ میں ان کے لیے خیر کی دعا کروں اور اللہ سے بہتر عطا ہونے کی امید رکھوں اور کبھی ایسا نہ ہو کہ ان کی نعمت دیکھ کر میں ان کے لیے برا سوچنے لگوں۔

اللَّهُمَّ اكْفِنِيهم بِما شِئْتَ (الترمذی: 3563)

ترجمہ: اے اللہ! تو مجھے ان کے شر سے جس طرح چاہے محفوظ فرما۔

حسد ایک ایسا زہر ہے جو دل کو بے سکون اور زندگی کو بے برکت بنا دیتا ہے۔ قناعت، ذکرِ الٰہی، دعا اور عاجزی اس کا بہترین علاج ہیں۔ جو شخص دوسروں کی کامیابی پر خوش ہو اور خیرخواہی کرے، وہ نہ صرف حاسد کے شر سے محفوظ رہتا ہے بلکہ خود بھی اللہ کی رحمت میں رہتا ہے۔

اے اللہ! ہمارے دلوں کو حسد اور کینہ سے پاک فرما، ہمیں دوسروں کی نعمتوں پر خوش ہونے والا بنا، اور ہمیں اپنی رضا اور برکتوں سے نواز۔ آمین یا رب العالمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں