عنوان: | اردو شروحات سہولت یا زوال؟ |
---|---|
تحریر: | محمد ریحان عطاری مدنی مرادآبادی |
پیش کش: | دار النعیم آنلائن اکیڈمی، مرادآباد |
عصرِ حاضر میں جب ہم درسِ نظامی کے نظامِ تعلیم و تعلم کا سنجیدہ جائزہ لیتے ہیں تو ایک فکری زوال اور ادبی سستی ہمیں گھیرے میں لیتی محسوس ہوتی ہے۔ طلباء و اساتذہ کی ایک بڑی تعداد اب عربی متون کو براہِ راست پڑھنے اور سمجھنے کے بجائے اردو شروحات پر انحصار کرنے لگی ہے۔ یہ رویہ بظاہر سہولت طلبی کا عکاس ہے، مگر درحقیقت یہ عربی فہم، لسانی مہارت اور علمی عمق کے لیے زہرِ قاتل بن چکا ہے۔
مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اردو شرح نویسی اب ایک ایسا علمی شوق بن چکی ہے کہ ہر شخص، ہر کتاب پر اپنے قلمی جوہر دکھانا چاہتا ہے۔ چاہے وہ کتاب ابتدائی ہو یا تخصصی، آسان ہو یا دقیق، ہر جگہ شرحوں کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ یوں ایک طرف طلبہ شرح کے محتاج بن گئے ہیں، اور دوسری طرف شرح نویسوں نے خود طلبہ کی علمی جڑیں کاٹنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
اردو شروحات پر انحصار کی وجوہات جو بھی رہیں بہر حال اس انحصار کے نہایت ہی خطرناک اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
عربی فہم و ذوق کا انقطاع
جب طالب علم ہر کتاب کو اردو شرح کی عینک سے دیکھنے کا عادی ہو جائے تو عربی زبان کا ذوق اس کے دل و دماغ سے محو ہونے لگتا ہے۔ عربی الفاظ، اسالیب، ترکیبیں، محاورات، اور نحوی لطافتیں جو ایک فاضل طالب علم کی پہچان ہوتی ہیں وہ صرف کتب کے صفحات میں قید رہ جاتی ہیں، ذہن میں نہیں اترتیں۔
تفکر و تدبر کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے
اردو شرحیں بسا اوقات طالب علم کو سوچے بغیر سمجھنے کی عادت سکھاتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ متن پر غور و فکر، سوالات اور تشریح کے عمل سے دور ہو جاتا ہے۔ نہ ترکیب سمجھتا ہے، نہ لغوی مناسبتیں، نہ اسلوب کا ربط، وہ صرف رٹے اور نقل پر چلتا ہے۔
اعتماد کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں
جب ایک طالب علم مسلسل اردو شرحوں کے بغیر کسی عبارت کو نہیں سمجھ پاتا تو اس کے دل میں ایک خاموش شکست پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ مان لیتا ہے کہ میں عربی نہیں سیکھ سکتا۔ یہی کمزور اعتقاد اس کی پوری علمی شخصیت کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
تحقیقی ذہن ختم، طوطا خوانی عام
تحقیق وہ جو اصل متن سے برآمد ہو، جس میں طالب علم خود تلاش کرے، کھوجے، سوال کرے، اور جواب پائے۔ مگر اردو شرحوں کا عادی طالب علم صرف وہی سمجھتا ہے جو شرح نویس نے لکھ دیا ہے۔ یوں وہ سوال کرنا، متبادل سوچنا اور کیوں کہنا بھول جاتا ہے۔
شرح نویسی کا بےمقصد اور بےمحور ہجوم
علماء و طلبہ کی بڑی تعداد شرح نویسی کو علمی خدمت سمجھ کر آسان سے آسان کتاب پر قلم اٹھا لیتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ بازار میں شرحیں ہیں، مگر معیاری علم نایاب ہے۔ ہر کتاب کی بیسیوں شرحیں موجود ہیں، مگر طلبہ کی فکری و لسانی حالت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔
اصلاح کے چند اقدامات
اساتذہ کی علمی و فکری تربیت
اصلاح کی بنیاد استاد سے شروع ہوتی ہے۔ استاد اگر خود شرحوں پر منحصر ہے تو وہ کبھی طالب علم کو عربی فہم کی جانب نہیں لے جا سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اساتذہ میں عربی تدریس کی مہارت، متن کے ساتھ براہ راست تدریس، اور شرح سے ماوراء تدریسی ذوق پیدا کیا جائے۔ اور اساتذہ کوشش کریں کہ وہ جن کتب کی تدریس کرا رہے ہیں ان کتابوں خود نوٹس اور خلاصے تیار کریں اس سے دروس انتہائی آسان ہوں گے اور اور تالیف و تصنیف کی صلاحیت پیدا ہوگی۔
تدریجی سہولت سے تدریجی آزادی تک کا سفر
ابتدائی درجات میں اردو وضاحت کو ایک تدریسی سہولت کے طور پر رکھا جا سکتا ہے، مگر یہ سہولت مستقل سہارے میں نہ بدلے۔ ہر درجہ میں شرح سے دوری کی منصوبہ بندی ہو، یہاں تک کہ آخری درجات میں طالب علم بغیر شرح کے بھی متن کا مکمل فہم حاصل کر سکے۔
لغت، صرف و نحو پر مضبوط گرفت
عربی زبان کی عمارت لغت اور قواعد پر کھڑی ہے۔ اگر طالب علم لغت اور نحو وصرف میں ماہر ہو، تو وہ ہر عبارت کے اندر خود داخل ہو کر اس کے معانی کشید کر سکتا ہے۔ اس لیے مدارس میں لغت فہمی، نحوی تجزیے، اور صرفی تحلیل کو کتب فہمی کا لازمی جز بنایا جائے۔
متن سے براہِ راست سوال و جواب کا ماحول
درس و تدریس کے دوران اساتذہ طلبہ سے وہی سوالات کریں جو اصل عربی عبارت میں مضمر ہوں۔ طلبہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ شرح کے بغیر متن سے جواب نکالیں، اس پر تدبر کریں، ترکیب سوچیں اور معنی اخذ کریں۔
عربی خلاصہ نویسی اور تقریری مشق
ہر سبق کے بعد طلبہ کو ترغیب دلائی جائے کہ وہ ہوسکے تو عربی میں ورنہ اردو میں از خود عربی متن کو سمجھ کر خلاصہ و نوٹس لکھیں، اور ان قغ مختصر تقریری مشق کروائی جائے اور مباحثے کرائے جائیں جو نہایت مفید ثابت ہوں گے۔ اس سے عربی میں سوچنے، بولنے اور بیان کرنے کی فطری عادت پیدا ہو گی۔
شرح نویسی کو قابو میں لایا جائے
اداروں اور علمی حلقوں کو چاہیے کہ شرح نویسی کے رجحان پر نظر رکھیں۔ صرف ان کتابوں پر شرح لکھی جائے جو فی الواقع شرح طلب ہوں، اور وہ بھی ایسے افراد لکھیں جن کے پاس علم، اسلوب اور مقصدیت ہو۔ شرح کا معیار ہو، دائرہ ہو، اور زبان ہو۔ اور کوشش کی جائے شارحین حضرات اردو شروحات کو چھوڑ آسان عربی انداز میں شروحات کا لکھنے کا بیڑا اٹھائیں اس سے طلباء و مدرسین اساتذہ کو تو آسانی ہوگی ہی ہے ساتھ ہی شارحین حضرات کی عربی ادب کافی حد تک مضبوط ہوجائے گی۔
گزارش و التماس
اردو شروحات کا حد سے زیادہ استعمال علم کی افزائش نہیں بلکہ صلاحیت کی تخریب ہے۔ ہمیں اپنے طلبہ کو عربی فہم، خود اعتمادی، تحقیق، اور زبان کے جمالیاتی ذوق سے آشنا کرنا ہو گا۔ اسی میں درسِ نظامی کی روح ہے، اور اسی میں ہماری علمی پائیداری کا راز۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین