عنوان: | مزارِ اعلیٰ حضرت: سنیت کی تابندہ پہچان |
---|---|
تحریر: | غوثیہ واسطی احمدی |
برصغیر کی سرزمین پر جب بدعات، گمراہیوں اور بد عقیدی کا طوفان چھا رہا تھا، تب علم و فہم، تقویٰ و طہارت اور عشقِ رسول کا ایک آفتاب طلوع ہوا، جس نے نہ صرف دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کا پرچم بلند کیا، بلکہ اہلسنت وجماعت کو ایک مضبوط علمی و روحانی بنیاد عطا کی۔ یہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ اُن کا مزارِ مبارک آج بھی سنیت کی پہچان اور روحانی سکون کا مرکز ہے۔
گنبدِ اعلیٰ حضرت نہ صرف ایک عظیم علمی ورثے کی علامت ہے بلکہ وہ مینارِ ہدایت ہے جس سے آج بھی علم، عشقِ مصطفیٰ اور دینی بصیرت کی روشنی پھیل رہی ہے۔ اس گنبد کی ہر لکیریں، ہر زاویہ ہمیں امام اہل سنت کی بصیرت، شجاعت اور دینِ مصطفیٰ پر غیر متزلزل عقیدت کی یاد دلاتی ہے۔
یہ مزار صرف ایک عمارت نہیں، بلکہ یہ اس مردِ مجاہد کا مقامِ آرام ہے جس نے فتاویٰ رضویہ جیسے ہزاروں صفحات پر مشتمل فقہی خزانے کو امت کے لیے چھوڑا۔ جس نے حســام الحرمین جیسی گراں قدر کتابیں لکھیں اور جس کا قلم آج بھی گمراہ فرقوں کے خلاف ایک تلوار کی حیثیت رکھتا ہے۔
کلک رضا ہے خونخوار برق بار
اعدا سے کہدو خیر منائیں نہ شر کریں
اعلیٰ حضرت کا مزار ایک مرکزِ عقیدت ہے جہاں عاشقانِ رسول آکر اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔ یہاں کی فضاؤں میں عشقِ مصطفیٰ کی خوشبو رچی بسی ہے، یہاں کی اینٹیں گواہ ہیں کہ علم، ادب، تحقیق اور تقویٰ کا اصل مفہوم کیا ہوتا ہے۔
یہی گنبد آج بھی اعلان کر رہا ہے:bہم وہ نہیں جو وقت کے دھارے میں بہ جائیں، ہم وہ ہیں جو دینِ مصطفیٰ کے لیے تنہا لشکر بن جائیں!