عنوان: | ضرب و کرب حیات کی بزم رقص میں |
---|---|
تحریر: | مفتیہ رضی امجدی غفر لھا |
پیش کش: | ادارہ لباب |
خرد ڈھونڈھتی رہ گئی وجہ غم
مزا غم کا درد آشنا لے گیا
زندگی، خوشی اور غم کا ایک لازوال رقص ہے؛ ایسا رقص جس کی ہر تان کبھی مسرتوں کی تھرتھراہٹ سے گونجتی ہے، تو کبھی کرب کی خاموش چیخوں سے روح تک کو مجروح کر دیتی ہے۔ یعنی زندگی خوشی اور غم کے حسین امتزاج کا نام ہے۔ یہ اگر ہمیں مسرتوں سے ہمکنار کرتی ہے تو اس کا معاوضہ بھی وصول کرتی ہے۔ جی ہاں! زندگی خوشیوں کے طلسمات سے ہم آہنگ کرتی ہے، تو اس کے بعد غم و آلام اور ضرب و کرب سے بھی روبرو کراتی ہے۔
کسی کی زندگی محض خوشیوں کا گہوارہ یا پھولوں کی سیج نہیں ہوتی؛ درد و کرب بھی اپنا مقام رکھتے ہیں۔ خوشی کے بعد غم، اور غم کے بعد خوشی، یہی طرزِ زندگی ہے۔ اور بے شک کرب تو لازمۂ حیات ہے، جس سے مفر ممکن نہیں۔ جہاں خوشیاں ہوں گی وہاں غم اپنا بسیرا ضرور ڈالے گا، جہاں سکون ہوگا وہاں بے اطمینانی کی فضائیں بھی ہوں گی، جہاں امنگیں ہوں گی وہاں پژمردگی کی کالی گھٹائیں بھی چھائیں گی۔
انسان کو اپنی چند روزہ زندگی میں بے شمار ضربوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی ذاتی امنگوں کی تکمیل میں حائل رکاوٹیں دل پر کاری ضرب لگاتی ہیں، کبھی کامیابی کے بعد ناکامی سے ہمکنار ہونا انسان کو مضروب کرتا ہے، کبھی تلخ لہجوں کی جراحت روح کو چھلنی کر دیتی ہے، کبھی ٹوٹتے اعتماد کی کرچیوں سے انسان ضرب کھاتا ہے۔
بے تحاشا یقین، بے پناہ چاہتیں، بکھرتے خواب، دم توڑتے عزائم، ادھوری خواہشیں، محبوب سے جدائی کی سوزش، اپنوں سے ملے دھوکے، غربت، تنہائی، بدلتے لوگ، ٹوٹتے وعدے… یہ سب وہ ضربیں ہیں جو انسان کی روح کو ریزہ ریزہ اور اس کے باطنی وجود کو قاش قاش کر کے رکھ دیتی ہیں، جس کی کرچیاں اس کو مزید گہرا کرتی رہتی ہیں۔
اور بدنی تکالیف سے روح کی اذیت زیادہ گہری اور دیرپا ہوتی ہے۔ کیونکہ جسمانی اذیت، ذہنی کوفت، بے کیفی، افسردگی، کبیدگیِ خاطر، کلفت و ملال، کدورت و تکدر، غم و اندوہ، اداسی و دلگیری، رنجش و آزردگی… یہ سب وقت کی رفتار کے ساتھ ماند پڑ جاتے ہیں۔ مگر سوزِ دروں اور روحانی کرب نہایت ہی پُرسوز اور جاں گسل ہوتا ہے، جس کی لَو وقت کی بڑھتی ہوئی رفتار کے ساتھ مدھم نہیں ہوتی بلکہ بتدریج بڑھتی ہی جاتی ہے۔
حیات کی تمام تر تلخیوں کے باوجود انسانی سرشت میں استقامت اور جدوجہد کا لازوال جذبہ شامل ہے، جو ہر ضرب سے ابھرنے اور ہر کرب سے سیکھنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔ ضرب و کرب کے کاٹے ہمیں زخم تو دیتے ہیں، مگر اس زخم سے رسنے والا لہو کا ہر قطرہ ہمیں حکمت و دانائی اور شعور و آگہی سکھاتا ہے۔ روح کا حقیقی ارتقا انہیں ضربوں سے ہوتا ہے۔ ضرب و کرب بظاہر ہمیں توڑتے ہیں مگر فی الواقع یہ ہمیں مضبوط و مستحکم بناتے ہیں۔ انسانی روح دکھوں کی بھٹی سے گزر کر ہی کندن بنتی ہے۔
ہر ضرب جو ہم سہتے ہیں اور ہر کرب جو ہمارے دل کو چھیدتا ہے، وہ مادی آسائشوں کے فریب سے نکال کر ہمیں روحانی سکون فراہم کرتا ہے۔ ہماری روح کرب کے قطروں سے سیراب ہو کر ہی نئی حیات پاتی ہے۔ ورنہ تو غم کی بھٹی سے گزرے بغیر شخصیت خام اور نامکمل رہ جاتی ہے۔ کیوں کہ زخم، کہتے ہیں دل کا گہنا ہے، درد دل کا لباس ہوتا ہے۔
احباء! ضرب و کرب سمندر کی لہروں کی مثل ہیں۔ کبھی ہمیں نرمی سے چھوتی ہیں اور کبھی قوت سے ٹکراتی ہیں۔ ہمیں ان طوفانوں سے ڈرنا نہیں بلکہ ان میں تیرنا ہوگا، کیونکہ انہی طوفانوں کی گہرائیوں میں ہماری روح کے گوہرِ نایاب پوشیدہ ہیں۔ یہ طوفان ہماری اندرونی قوت کو بیدار کرتے ہیں، اور ضرب و کرب کے بعد نکلنے والے آنسو ہماری اندرونی فضا کا غسل ہیں، جو ہمیں میل کچیل سے پاک کر کے ایک شفاف آئینہ بناتے ہیں اور خالص کر کے ہمیں زندگی میں درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔
تو پھر کیا غم۔۔۔۔؟ کہ یہ زندگی خوشیوں اور ضرب و کرب کا ایک لازوال رقص ہے۔ ہر ضرب، ہر آنسو اور ہر زخم ہمیں زندگی کی گہرائیوں سے آشنا کرتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی مسرتیں بیرونی آسائشوں میں نہیں بلکہ روح کی پاکیزگی اور اندرونی قوت میں پنہاں ہیں۔
تو آؤ، اس رقصِ حیات میں شامل ہوں، ہر تان پر مسکرائیں، ہر کرب سے سیکھیں، اور ہر ضرب سے کندن بن کر ابھریں۔ کیونکہ یہی ہماری روح کا اصل سفر ہے۔ اس رقص کو جیو، اس کے ہر لمحے کو اپناؤ، کیونکہ اسی میں ہماری کہانی کا سب سے خوبصورت باب لکھا جاتا ہے۔
عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
ہنس ہنس کے آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں