دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

علمِ دین کامیابی کی ضمانت

علمِ دین کامیابی کی ضمانت
علمِ دین کامیابی کی ضمانت
عنوان: علمِ دین کامیابی کی ضمانت
تحریر: محمد سجاد علی قادری ادریسی
پیش کش: بزم ضیاے سخن، اتر دیناج پور، بنگال

علم انسانیت کی معراج اور شرافت کی پہچان ہے۔ اسی کے ذریعے انسان اپنے خالق و مالک کو پہچانتا ہے، دین کی بنیادوں سے واقف ہوتا ہے اور اپنے مقصدِ حیات کو سمجھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان، انسان کہلانے کا مستحق تب ہی بنتا ہے جب وہ علم سے آراستہ ہو۔ علم ہی رفعت و عظمت کی علامت ہے اور اسی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر تمام مخلوقات پر برتری عطا فرمائی، یہاں تک کہ حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی وجہ سے مسجودِ ملائکہ بنایا گیا۔

اس کے برعکس جہالت ایک خطرناک اور لاعلاج بیماری ہے۔ جہالت وہ اندھیری وادی ہے جس میں انسان بھٹکتا رہتا ہے مگر منزلِ کامیابی تک نہیں پہنچ پاتا۔ بل کہ جہالت انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا کر جانور سے بھی بدتر کر دیتی ہے۔

اسی لیے قرآن و احادیث میں بار بار علم اور اہلِ علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اور اولیا و بزرگانِ دین نے حصولِ علم کی خاطر اپنی جان، مال اور آرام تک قربان کر دیا۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ساری دنیا اس بات کو جانتی اور مانتی ہے کہ علم ایک نہایت قیمتی دولت ہے اور اس کا حاصل کرنا ہر انسان کے لیے لازمی ہے۔

علم اپنی ذات میں ایک روشن چراغ ہے جو انسان کی زندگی کو سنوارتا ہے، مگر وہی علم زیادہ قیمتی اور معتبر ہے جو اللہ و رسول کی رضا کے لیے اور شریعت کے تابع ہو۔ میں جس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ محض فلسفیوں کی اختراع کردہ دنیاوی سائنس یا مادّی ترقی کے علوم نہیں، جن کا مقصد صرف دنیا کمانا ہو، بل کہ وہ علم ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل کیا جائے، کیوں کہ یہی علم ہے جو انسان کو دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں کامیابی اور کام رانی عطا کرتا ہے۔

قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اسی علم کی تعریف اور اس کی ترغیب آئی ہے؛ کبھی صراحتاً اور کبھی اشارۃً بار بار اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُ. [الفاطر: 28]

ترجمہ کنزالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ [تفسیر خزائن العرفان]

اسی طرح فرمایا:

یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ. [المجادلہ: 11]

ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ [تفسیر خزائن العرفان]

علمِ دین کے حصول کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ [التوبہ: 122]

ترجمہ کنزالایمان: کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں۔ [تفسیر خزائن العرفان]

اور ایک مقام پر اہلِ علم اور بے علم کے مابین واضح فرق بیان فرمایا:

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ [الزمر: 9]

ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان؟ نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ [تفسیر خزائن العرفان]

ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم والوں کو بے علموں پر فضیلت بخشی اور انہیں بلند مراتب عطا فرمائے۔

اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی علمِ دین کے سیکھنے اور سکھانے کی کثرت سے فضیلتیں آئی ہیں۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ. [صحیح بخاری: ج:2، ص:755، حدیث: 5027]

یعنی تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں عالم کی فضیلت بیان فرمائی:

عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت ہے۔ [سنن ابو داؤد: ج:3، ص:444، حدیث: 3641]

الغرض، قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ علم دین کی فضیلت بے شمار ہے، مگر افسوس کہ آج ہمارا معاشرہ اس سے بہت دور جا چکا ہے۔ دینی تعلیم حاصل کرنا ہمیں بوجھ یا عار محسوس ہوتا ہے، حالاں کہ اصل کامیابی کی ضمانت اسی میں مضمر ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ دنیاوی تعلیم چھوڑ دی جائے؛ دنیاوی علوم بھی حاصل کیے جائیں اور ضرور حاصل کیے جائیں، مگر ان کا مقصد محض دنیا کمانا نہیں بل کہ شریعت اور قرآن و حدیث کے تابع ہوکر حاصل کرنا چاہیے۔ جب دنیاوی علوم کو دینی اصولوں کے تابع کیا جائے تو یہی علوم انسان کی نجات اور کامیابی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

ذرا غور کیجیے کہ جادو اور ساحری کی مذمت قرآن میں موجود ہے، لیکن جب یہی جادوگر اخلاصِ نیت کے ساتھ بارگاہِ موسیٰ علیہ السلام میں حاضر ہوئے تو وہی علم انہیں محض مومن ہی نہیں بل کہ صحابیت اور شہادت جیسے عظیم مرتبے تک لے گیا۔ [مخلصاً، جاء الحق: ص:39]

پس، بحیثیت مسلمان ہمارے لیے اتنا علم سیکھنا لازمی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے ایمان اور اعمال کی حفاظت کرسکیں، خاص طور پر اس پرفتن دور میں جہاں فتنوں کی بارش ہو رہی ہے۔

اللہ عزوجل نے اپنے فضل و کرم سے علم کے حصول کے لیے بے شمار سہولتیں پیدا فرما دی ہیں۔ جدید ترین ذرائع اور نت نئی تکنیک نے علمِ دین کو سیکھنا اور زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ مزید برآں، علمائے کرام اور فقہائے عظام کی ایک بڑی جماعت اس وقت دین کی ترویج و اشاعت میں مصروفِ عمل ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان سے جڑ کر علمِ دین کو حاصل کریں اور اپنے ایمان و اعمال کو درست بنائیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو علم دین سیکھنے اور سکھانے کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین وآلہ وصحبہ اجمعین۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔