عنوان: | اختلاف کو افتراق نہ بنائیں |
---|---|
تحریر: | احسان مصطفیٰ، درجہ سابعہ |
پیش کش: | جامعۃ المدینہ فیضان عطار، ناگپور |
علما و مشائخ وہ روشن چراغ ہیں، جو امت مسلمہ کی فکری، علمی، عملی رہ نمائی کرتے ہیں۔ ان کی نکتہ فہمی، دینی خدمات و کردار امت کے لیے باعثِ سربلندی ہیں۔ ان کا ہر ارشاد، شرعی رائے، اور ہر فکری زاویہ امت کی فکری سفر و تشکیل پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ ان علما کا احترام محض ان کی مسلکی وابستگی کی بنا پر نہیں، بلکہ ان کی دیانت، علم، عمل، حلم اور اخلاص کی بنیاد پر بھی کیا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اہل علم کے مابین بعض فقہی یا نظریاتی امور میں اختلافات پائے جاتے ہیں، مگر تنازعات کی نوعیت ہمیشہ علمی ہی رہی ہے، نہ کہ شخصی۔ ناتفاقیاں کبھی ان کے دلوں میں لاتعلقی پیدا نہیں کیں، بلکہ ان کے درمیان محبت، باہمی احترام اور تحمل کی خوش گوار فضا ہمیشہ قائم و دائم رکھیں۔
اس کی ایک عظیم مثال ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور بالخصوص امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے با صلاحیت شاگرد امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ اگرچہ یہ دونوں شاگرد کئی فروعی مسائل میں اپنے استاد سے علمی اختلاف رکھتے تھے، مگر ان کا ادب، احترام، اور اخلاص کبھی کم نہ ہوا۔ لہٰذا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف مثلاً المبسوط اور الجامع الصغیر میں کئی فروعی مسائل میں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی رائے سے مختلف ہیں، مگر ان کا دل استاد کی محبت و ادب سے سرشار تھا۔ یہ اختلاف صرف فروعی تھا، اور دائرۂ تہذیب و خلوص میں رہا۔ نہ کبھی زبان میں بدلحاظی آئی، نہ دل میں بغاوت۔ یہ طرزِ عمل اس بات کی عملی تصویر کشی ہے کہ فروعی اختلاف کو افتراق اور تفرقے میں بدلنا ایک خطرناک غلطی ہے۔
چنانچہ آج کے دور میں بھی اگر دو سنی علما کسی فروعی مسائل میں مختلف رائے رکھتے ہیں، تو یہ کوئی نیا یا ناقابل قبول امر نہیں۔ اور سلف و صالحین کا طریقہ کار یہی رہا ہے کہ اختلاف کو "اختلاف" کی حد تک محدود رکھتے تھے، اور اس کو اتحاد اور تعاون کے دائرے سے باہر جانے نہ دیا کرتے تھے۔ ان حضرات کا باہمی میل جول، مجالسِ علم میں شرکت، اور ایک دوسرے سے حسنِ سلوک اس بات کی دلیل ہیں کہ فکر کا اختلاف، بھائی چارے کی بنیاد کو کمزور نہیں کرتا، بلکہ اسے مزید مستحکم کرتا ہے۔
لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف صرف فروعی و فقہی مسائل تک محدود ہے۔ جن میں اختلاف نہ صرف قابلِ قبول بلکہ امت کے لیے باعث رحمت ہے۔ رہا عقائد و اصولِ دین، اس میں کسی قسم کا انحراف ہرگز قابل قبول نہیں، مثلاً توحید، قرآن و سنت کی حقانیت، ختم نبوت، رسالت، صحابہ کرام کی عظمت و شان، یہ وہ بنیادی عقائد ہیں جن سے روگردانی اہل سنت کے دائرے سے خارج کر دیتی ہے۔
یہی طرزِ فکر امت کے لیے باعثِ نجات ہے جب کہ اس کا برعکس امت کو تفرقہ اور گمراہی میں ڈالنے کا سبب ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اسلاف کے ان روشن نمونوں سے سبق لیں، اور اختلاف کو دلیل، فہم، اور وسعتِ نظر کا ذریعہ بنائیں، نہ کہ نفرت، تفرقے اور تعصب کا۔
اللہ تعالیٰ ہمارے اصحابِ علم کی عمروں میں برکت دے، ان کے علم سے امت کو فائدہ پہنچائے، اور ان کے درمیان محبت، الفت، وحدت اور اخلاص کو قائم رکھے۔
آمین یا رب العالمین۔