دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

ذات سے کائنات تک

عنوان: ذات سے کائنات تک
تحریر: مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا
پیش کش: ادارہ لباب

علامہ رومی فرماتے ہیں:

أمس كنت ذكياً، لذا أردت أن أغير العالم. اليوم أنا حكيم، لذا أنا أغير نفسي۔

ترجمہ: کل میں ذہین تھا، اس لیے میں دنیا کو بدلنا چاہتا تھا۔ آج میں عقلمند ہوں، اس لیے میں خود کو بدل رہا ہوں۔

دنیا کا منظرنامہ فی الواقع ہمارے باطن کا عکس ہوتا ہے۔ بیرونی کائنات کی گونج اندر کی آواز سے پیدا ہوتی ہے، اور جب تک اندر کی صدا نہیں بدلے گی، گونج میں فرق نہیں آئے گا۔

ذہانت اور دانشوری میں فرق ہے۔ ہر وہ شخص جسے ذہانت کی صفت سے متصف کر دیا گیا، دانشوری اس کے لیے لزوم کی حیثیت نہیں رکھتی۔ ذہانت کا ہر زاویے سے صحیح اور صائب استعمال، دانشوری کہلاتا ہے۔

اسی فلسفے کی روشنی میں رومی نے ذہانت و دانشوری کے ایک بے مثال فرق کو نہایت ہی احسن پیرائے میں بیان فرماتے ہوئے اپنا ما فی الضمیر ادا کیا ہے، جو نہ صرف ایک علمی قول پر محمول ہے بلکہ ہر شخص کے لیے ایک پرجوش، تبدیلی کا ضامن، تاثیر افزا اور لائقِ تعمیل ترغیب ہے۔ ایک ایسی ترغیب جس سے معاشرے کا شکستہ کشتی پر ہچکولے کھاتا توازن بحال ہو سکتا ہے۔ یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو کائنات کی تبدیلی کا آغازِ باب قرار پاتا ہے۔

اللہ جلّ و علا قرآنِ مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ (الرعد، 13: 11)

ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔

انسان کا باطن ایک ایسی زرخیز زمین کی طرح ہے جس پر کائنات کے لالہ زار لہلہانے کی بھی استعداد رکھتے ہیں اور خزاں رسیدہ ہونے کے بھی متحمل ہیں۔ یہ انسان کے باطن پر منحصر ہے کہ وہ کائنات کے اس گلزار کو کس طرح دیکھنے کا خواہاں ہے۔

عزیزو! عقلمندی یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو بدلنے کی کوشش کریں، بلکہ حقیقی دانشوری یہ ہے کہ آپ خود کو بدلیں۔ جو باتیں دوسروں میں بری لگتی ہیں، اپنے کردار میں انہیں شامل نہ کریں۔ تبدیلی باہر کی دنیا کو بدلنے کی چاہت سے نظر نہیں آئے گی، اور نہ ہی کسی میں وہ تاب و یارا ہے کہ وہ اہلِ عالم کو بدلنے کے خواب کی تکمیل کر سکے۔

معاشرے میں امن و شانتی اور دنیا میں سکون و اطمینان، دوسروں کو بدلنے کی خواہش سے حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ ہر وہ شخص جو اس کائنات کے نشیب و فراز میں تبدیلی کا خواہاں ہے، اس کی انفرادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اوّلاً خود کو بدلے۔ اگر ہر فرد دوسروں کی خامیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنی کمزوریوں اور خطاؤں کو دور کرنا شروع کر دے تو ایک بہترین معاشرہ ازخود تشکیل پا سکتا ہے۔

اولین فریضہ اپنا علاج ہے، اور تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ لہٰذا۔۔۔! دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آؤ، خود کو بدلیں۔

ہر اس عملِ قبیح کو ترک کر دیں جسے دوسروں میں دیکھ کر ہم برداشت نہیں کر سکتے، ہر وہ مکروہ فعل جو ہمارے ضمیر کو مجروح و داغدار کرتا ہے، وہ خوبیاں پیدا کریں جو ہم دوسروں میں دیکھنے کے خواہاں ہیں، اور وہ چیز بن جائیں جو ہم دنیا میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی کائنات کی تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہوگا۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔