عنوان: | نیکیوں پر استقامت کی برکت |
---|---|
تحریر: | محمد طارق القادری بنارسی |
زندگی میں انسان بے شمار نیکیاں کرتا ہے، جن میں بعض بڑی اور بعض بظاہر چھوٹی ہوتی ہیں۔ عمومی رجحان یہ ہوتا ہے کہ انسان بڑی نیکیوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے، کیونکہ اسے لگتا ہے کہ یہی نیکیاں زیادہ فائدہ مند ہیں۔
چنانچہ وہ ان کے حصول کی کوشش تو کرتا ہے، لیکن دشواری کے باعث ان پر استقامت حاصل نہیں کر پاتا۔ نتیجتاً وہ چھوٹی نیکیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، حالانکہ بعض اوقات یہی بظاہر معمولی نیکیاں اگر توجہ اور استقامت کے ساتھ کی جائیں، تو بڑی نیکیوں سے بڑھ کر فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔
کیونکہ وہ نیکی، جو استقامت کے ساتھ کی جائے، وہ بارگاہِ الٰہی میں جلد مقبول ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَإِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ مَا دَامَ وَإِنْ قَلَّ (بخاری: 5861)
ترجمہ: اے لوگو! اپنی طاقت کے مطابق اعمال کرو، اللہ پاک (ثواب دینے کے معاملے میں) نہیں تھکتا، جبکہ تم (عمل کرنے میں) تھک جاتے ہو۔ اللہ پاک کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے، جو استقامت کے ساتھ کیا جائے، اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔
اس حقیقت کو ایک ایمان افروز واقعہ سے یوں سمجھا جا سکتا ہے:
عاشورا کی رات اور ایک اپاہج بچی کی قبولیتِ دعا
بصرہ کا ایک امیر شخص ہر سال شبِ عاشورا کو اپنے گھر میں لوگوں کو جمع کرتا۔ محفل میں قرآنِ کریم کی تلاوت اور ذکرِ الٰہی ہوتا، اور یہ سلسلہ پوری رات جاری رہتا۔ صبح کے وقت وہ سب کو کھانا کھلاتا، غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کا خاص خیال رکھتا۔
اس کا ایک پڑوسی تھا، جس کی بیٹی اپاہج تھی۔ ایک مرتبہ اس بچی نے باپ سے پوچھا:
ابو! ہمارا پڑوسی ہر سال اس رات لوگوں کو کیوں جمع کرتا ہے؟ وہ سب رات بھر تلاوت اور ذکر کیوں کرتے ہیں؟
باپ نے جواب دیا:
بیٹی! یہ عاشورا کی رات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس رات کی بہت عظمت اور حرمت ہے۔
جب گھر کے سب افراد سو گئے، تو وہ بچی سحری تک جاگتی رہی اور قرآن و ذکر کی آواز سنتی رہی۔ جب محفل کے آخر میں دعا ہونے لگی، تو اس نے بھی اپنے دل کی بات اللہ کے حضور پیش کی:
اے اللہ! تجھے اس رات کی حرمت اور ان بندوں کا واسطہ، جنہوں نے ساری رات تیرا ذکر کیا، مجھے شفا عطا فرما، میری تکلیف دور کر دے، اور میرے ٹوٹے دل کو جوڑ دے۔
ابھی اس کی دعا مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ وہ اپنی بیماری سے نجات پا گئی اور صحت یاب ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی۔
باپ نے حیرت سے پوچھا: بیٹی! کس نے تجھ سے یہ مصیبت دور کی؟
اس نے جواب دیا: اسی ربِ کریم نے، جس نے مجھ پر اپنی رحمت برسائی، اور انعام و احسان میں ذرہ بھر بخل نہ کیا۔ میں نے اس رات کا وسیلہ پیش کیا، اس نے میری سن لی اور مجھے عافیت عطا فرما دی۔ (ضیاء القاری، جلد 1، صفحہ: 451، مکتبۃ المدینہ)
اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ انسان کو ان نیکیوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، جن کو وہ آسانی اور استقامت کے ساتھ کر سکتا ہے۔
یہ نیکیاں اگرچہ بظاہر چھوٹی ہوں، مگر ان پر استقامت انہیں اللہ کی بارگاہ میں محبوب اور مقبول بنا دیتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بڑی یا مشکل نیکیوں کو ترک کر دیا جائے، بلکہ وہ بھی انجام دی جائیں، لیکن ترجیح ان اعمال کو دی جائے، جو استقامت کے ساتھ ادا کیے جا سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں استقامت کے ساتھ نیک اعمال بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، بجاہِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔