عنوان: | قربانی کی اہمیت و فضیلت |
---|---|
تحریر: | محمد علاؤ الدین قادری مصباحی بلرام پور |
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنتِ مبارکہ ہے، اور اسے امتِ محمدیہ کے لیے بھی باقی رکھا گیا ہے۔
قربانی کی یہ رسم ابتدائے اسلام سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ امت کے تمام فقہائے کرام کے نزدیک قربانی شعائرِ دین میں سے ہے، اور اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بایں سبب، زمانۂ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے آج تک تمام مسلمان اس مبارک سنتِ ابراہیمی کو نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جو احکام اپنے بندوں پر نافذ فرمایا ہے، ان میں بعض احکام وہ ہیں جو بدنی اور مالی دونوں ہیں، جیسے حج؛ بعض وہ ہیں جو صرف بدنی ہیں، جیسے نماز؛ اور بعض وہ ہیں جو صرف مالی ہیں۔ اِنہی مالی عبادتوں میں سے قربانی بھی ہے۔
قربانی دراصل رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (الکوثر: 2)
ترجمہ کنز الایمان: تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ﷺ کو قربانی کرنے کا حکم دے رہا ہے کہ اے محبوب! ہم نے تمہیں خیرِ کثیر سے نوازا ہے، لہٰذا اس کے شکرانے میں نماز پڑھو اور قربانی پیش کرو۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا، اور ہمیشہ قربانی کرتے رہے، اور قربانی نہ کرنے والوں پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا۔
حدیث شریف میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم: من وجد سَعَۃً و لم یُضحِّ فلا یقرَبَنَّ مُصلانا (رواہ ابن ماجہ و احمد)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو صاحبِ استطاعت ہو اور قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔
مذکورہ آیتِ مبارکہ اور حدیثِ نبوی سے قربانی کی اہمیت کا ثبوت ملتا ہے۔
قال الشیخ ابو الحامد القادری فی حاشیۃ القدوری: ذکر الطحاوی انھا واجبۃ عند الامام، و وجہ الوجوب قولہ علیہ السلام: من وجد سعۃ و لم یضح فلا یقربن مصلانا۔
ترجمہ: شیخ ابو حامد قادری علیہ الرحمہ نے قدوری شریف کے حاشیہ میں ذکر فرمایا: امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک (صاحبِ استطاعت پر) قربانی واجب ہے۔ اور بطورِ دلیل رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول نقل فرمایا: جو صاحبِ استطاعت ہو اور قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔
لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ صاحبِ استطاعت، مسلمان، آزاد، مقیم، مالدار پر یومِ نحر میں قربانی کرنا ضروری ہے۔
کما ذکر الامام ابو الحسن احمد القدوری فی کتابہ: الاضحیۃ واجبۃ علی کل حر مسلم مقیم موسر فی یوم الاضحی بذبح عن نفسہ۔
احادیثِ نبویہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں قربانی کی بے شمار فضیلتیں آئی ہیں، اور کئی مقامات پر اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے۔ درج ذیل حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیں، جو قربانی کی فضیلت و اہمیت پر دلالت کر رہی ہے:
عن زید بن ارقم رضی اللہ عنہ قال: قال اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یا رسول اللہ! ما ھٰذہ الاضاحی؟ قال: سنۃ ابیکم ابراھیم علیہ السلام قالوا: فما لنا فیھا یا رسول اللہ؟ قال: بکل شعرۃ حسنۃ قالوا: فالصوف یا رسول اللہ؟ قال: بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ (مشکوٰۃ المصابیح، صفحہ: 129)
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں۔ عرض کیا: ان میں ہمیں کیا ملے گا؟ فرمایا: ہر بال کے عوض نیکی۔ عرض کیا: اون، یا رسول اللہ فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے نیکی۔
صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ قربانی کرنے میں ہمیں کیا فائدہ ملے گا؟ تو نبیِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام کے توسط سے قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کو بتا دیا کہ سن لو! قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض نیکی ملے گی۔
اس حدیثِ پاک سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یومِ نحر میں جانور ہی قربان کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص جانور کی قیمت صدقات و خیرات کرے، تو وہ ثواب نہ پائے گا، اور نہ ہی اس کے ذمے سے قربانی ساقط ہو گی، کیونکہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر بال کے عوض نیکی ملے گی۔
تو اگر کوئی شخص قیمت صدقہ کرے، تو وہ بال کہاں سے لائے گا؟ لہٰذا اُسے یہ فضیلت اور ثواب ہرگز نہ ملے گا۔ (مرآۃ المناجیح)
لہٰذا جہاں اس حدیثِ پاک سے قربانی کی فضیلت و اہمیت کا پتا چلتا ہے، وہیں یہ بات بھی دو دو چار کی طرح واضح ہے کہ عید الاضحٰی پر عنداللہ قربانی ہی محبوب ترین عمل ہے۔
اس روایت کے علاوہ ایک اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیں، جو اسی مفہوم کو واضح کرتی ہے:
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر أحبّ إلی اللہ من إهراق الدم، إنھا لتأتی یوم القیامۃ بقرونھا وأشعارھا وأظلافھا، وإن الدم لیقع من اللہ بمکان قبل أن یقع من الأرض، فطیبوا بہا نفساً (مشکوٰۃ المصابیح، صفحہ: 127)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: انسان بقر عید کے دن کوئی ایسی نیکی نہیں کرتا، جو خون بہانے سے زیادہ پیاری ہو۔ یہ قربانی قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی۔ اور خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے یہاں قبول ہو جاتا ہے۔ لہٰذا خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔
اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ قربانی میں مقصود خون بہانا ہے، گوشت کھایا جائے یا نہ کھایا جائے۔
لہٰذا اگر کوئی شخص قربانی کے جانور کو زندہ ہی خیرات کر دے، یا قربانی کے جانور کی قیمت خیرات کرے، یا قربانی کے جانور کے برابر سونا یا چاندی تول کر خیرات کر دے، بلکہ سونا چاندی کے پہاڑ اور جواہرات کا خزانہ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں لٹا دے، تو بھی قربانی ادا نہ ہو گی۔
اور قربانی کے ان دنوں (دسویں، گیارہویں، بارہویں ذی الحجہ) میں اُس کو وہ عظیم ثواب نہیں مل سکتا، جو قربانی کے جانور کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مذکورہ بالا دنوں میں ذبح کرنے سے ملتا ہے۔ قربانی پر اجر و ثواب اسی وقت ملے گا، جب قربانی اسلام کے بتائے ہوئے قانون اور شرعی طریقہ کار کے مطابق کی جائے۔
لہٰذا قربانی کے جانور کی قیمت خیرات کرنے یا قومی فنڈ میں دینے سے ہرگز ہرگز قربانی کا ثواب نہ ملے گا، اور نہ قربانی کا واجب ادا ہوگا۔
اور جس شخص پر قربانی واجب ہے، اگر وہ ایامِ قربانی میں بجائے قربانی کے دس لاکھ اشرفیاں بھی صدقہ کرے گا، تو بھی قربانی ہرگز ہرگز ادا نہ ہو گی، اور نہ اس سے واجب ساقط ہو گا، بلکہ وہ گناہگار اور مستحقِ عذابِ نار ہی رہے گا۔