✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

عمرہ کے فضائل و برکات

عنوان: عمرہ کے فضائل و برکات
تحریر: محمد سمیر خان عطاری حیدرآبادی

اللہ تعالیٰ کے گھر مکہ مکرمہ میں دو اہم عبادتیں ہوتی ہیں: حج اور عمرہ۔ لیکن دونوں کے مابین تفاوت ہے۔ حج وہ عبادت ہے جو محض صاحبِ استطاعت حضرات پر فرض ہوتا ہے، جبکہ عمرہ ہر امیر اور غریب شخص کر سکتا ہے۔ اسی طرح حج سال کے مخصوص ایام 8 ذوالحجہ تا 12 ذوالحجہ میں ادا ہوتا ہے اور اس کے کئی سارے ارکان ہیں، جبکہ عمرہ سال میں کسی بھی دن ادا کیا جا سکتا ہے اور اس کے ارکان حج کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ بہر کیف، اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کعبہ کو عبادت اور امن کی جگہ بنایا ہے۔ جیسے کہ قرآنِ مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاؕ-وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ (البقرۃ: 125)

ترجمۂ کنزالعرفان: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لیے مرجع اور امان بنایا، اور (اے مسلمانو!) تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔

عبادتیں کئی طرح کی ہوتی ہیں، مثلاً نماز، روزہ، اعتکاف، صدقہ و خیرات۔ لیکن جب بندہ مکہ مکرمہ میں جائے تو کس عبادت کو ترجیح دے؟ تو علماء کرام فرماتے ہیں: جب یہاں حاضری کا شرف ملے تو بندے کو چاہئے کہ ادائیگیِ عمرہ پر خاص توجہ دے۔ وہ اس لیے کہ نماز، روزہ، اعتکاف، صدقہ و خیرات وغیرہ عبادتیں دنیا کی کسی بھی مسجد یا مقام میں ادا کی جا سکتی ہیں، لیکن عمرہ ایک ایسی عبادت ہے جو صرف کعبۃ اللہ شریف کے حدود ہی میں ادا کیا جاتا ہے۔ نیز، اس سے ہمیں عمرہ کی فضیلت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح عمرہ کے کئی سارے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ:

اصبہانی، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں: جس نے کامل وضو کیا، پھر حجرِ اسود کے پاس بوسہ دینے کو آیا، وہ رحمت میں داخل ہوا۔ پھر جب بوسہ دیا اور یہ پڑھا: بِسْمِ اللہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ اسے رحمت نے ڈھانک لیا۔ پھر جب بیت اللہ کا طواف کیا تو ہر قدم کے بدلے ستر ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی، اور ستر ہزار گناہ مٹا دیے جائیں گے، اور ستر ہزار درجے بلند کیے جائیں گے، اور اپنے گھر والوں میں ستر کی شفاعت کرے گا۔ پھر جب مقامِ ابراہیم پر آیا اور وہاں دو رکعت نماز ایمان کی وجہ سے اور طلبِ ثواب کے لیے پڑھی، تو اس کے لیے اولادِ اسماعیل میں سے چار غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھا جائے گا، اور گناہوں سے ایسا نکل جائے گا جیسے آج اپنی ماں سے پیدا ہوا ہو۔ (صدر الشریعہ، بہار شریعت، ج: 1، حدیث: 8، ص: 1091، مکتبۃ المدینہ)

سبحان اللہ! کیا شان ہے! جب بندہ عمرہ کی ادائیگی سے فارغ ہوتا ہے تو کتنی زیادہ نیکیاں کما لیتا ہے۔ نیز، یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مکۃ المکرمہ میں ایک نیکی، ایک لاکھ نیکی کے برابر ہے۔ اسی طرح، بندہ اگر ایک عمرہ ادا کرنے کے بعد دوسرا عمرہ ادا کرے تو یہ اس دوران کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جیسا کہ روایت میں آتا ہے:

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی پاک، صاحبِ لولاک، سیّابِ افلاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے مابین گناہوں کا کفارہ ہے، اور حجِ مبرور کی جزا جنت ہی ہے۔ (صحیح البخاري، کتاب العمرۃ، باب وجوب العمرۃ وفضلها، حدیث: 1773، ص: 139)

علماء فرماتے ہیں کہ دو عمروں کے درمیان کے گناہِ صغیرہ معاف ہو جاتے ہیں، اور حجِ مقبول میں گناہِ کبیرہ کی معافی کی بھی قوی امید ہے۔ حجِ مقبول کی جزا تو یقیناً ہے، اس کے علاوہ دنیا میں غنا، دعا کی قبولیت بھی عطا ہو جائے تو رب کا کرم ہے، حصر ایک جانب میں ہے۔ (کتاب: مرآۃ المناجیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد: 4، حدیث نمبر: 2508)

عمرہ جہاں آخرت میں فائدہ پہنچائے گا، وہیں اگر بندہ حلال و جائز چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے تو رب تعالیٰ وہ بھی عطا فرماتا ہے۔ جس بات کا اشارہ ہمیں آنے والی حدیثِ مبارکہ سے ملتا ہے:

سرکارِ ابد قرار، شافعِ روزِ شمار ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: حاجی اور عمرہ کرنے والے اللہ عزوجل کے مہمان ہیں، وہ انہیں بلاتا ہے تو یہ اس کے بلاوے پر لبیک کہتے ہیں، اور یہ اس سے سوال کرتے ہیں تو اللہ عزوجل انہیں عطا فرماتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الحج والعمرۃ، قسم الاقوال، باب فضائل الحج ووجوبہ و آدابہ، حدیث: 11811، ج: 5، ص: 5)

حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرور، دو جہاں کے تاجدار، سلطانِ بحر و بر ﷺ نے فرمایا: حج اور عمرہ ہے، درپے ادا کر لیا کرو، کیونکہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی سونے، چاندی اور لوہے کا زنگ دور کر دیتی ہے۔ (الترمذي، کتاب الحج، باب ما جاء في ثواب الحج والعمرۃ، الحدیث: 810، ج: 2، ص: 218)

سبحان اللہ! خوش نصیب ہیں وہ حضرات جو حج کی ادائیگی کے بعد عمرہ ادا کر کے ایسی مذکورہ فضیلتوں کے مستحق ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہر بندے کی خواہش ہونی چاہیے کہ اگر مجھ پر حج فرض نہیں ہے تو کم از کم میں اپنی زندگی میں ایک مرتبہ عمرہ ادا کروں اور اپنے لیے آخرت میں ذریعۂ نجات بناؤں۔

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نمازِ جمعہ کے بعد عصر کی نماز پڑھنے تک مسجد ہی میں رہے، اور اگر نمازِ مغرب تک ٹھہرے تو افضل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس نے جامع مسجد میں جمعہ ادا کرنے کے بعد وہیں رک کر نمازِ عصر پڑھی، اُس کے لیے حج کا ثواب ہے، اور جس نے (وہیں رک کر) مغرب کی نماز پڑھی، اُس کے لیے حج اور عمرے کا ثواب ہے۔ (فیضانِ جمعہ، ص: 8، مکتبۃ المدینہ)

آج ہے روبرو مرے کعبہ
سلسلہ ہے طواف کا یا رب

بتاریخ: ۲۴ ذو القعدہ ۱۴۴۶ھ، بمطابق ۲۳ مئی ۲۰۲۵ء

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں