عنوان: | قومیں طاقت سے نہیں اخلاص سے بیدار ہوتی ہیں! |
---|---|
تحریر: | حسن رضوی، رامپور |
ہندوستان میں برسرِ اقتدار پارٹیاں، خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، "ہندو قوم کو جگانے" کے نام پر جو بیانیہ پیش کر رہی ہیں، اس میں اخلاص سے زیادہ سیاسی مفادات اور طاقت کا حصول چھپا ہے۔ حالانکہ فطرت کا واضح اصول ہے کہ قوموں کو بیداری اور ان کی فکری تعمیر کے لیے سچائی، جذبہ اور بلند مقاصد کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ محض طاقت، پروپیگنڈا یا جبر کے ہتھکنڈوں کی۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیاں ملکی سالمیت کے بجائے ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دے رہی ہیں، جس میں ہندو شناخت کو ایک متحد، جارحانہ اور غالب قوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اور یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہندو عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لیے ان کی مذہبی علامات، تاریخی واقعات اور فرقہ وارانہ تقسیم پر مبنی تحریر و تقریر کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن ان کا یہ طریقہ کار اکثر استحصال کی شکل اختیار کر لیتا ہے، کیونکہ اس کا بنیادی مقصد ووٹوں کی سیاست اور اپنے اقتدار کی مضبوطی ہوتا ہے، نہ کہ ہندو قوم کی حقیقی سماجی، معاشی یا اخلاقی ترقی۔ مثال کے طور پر (2002) گجرات فسادات اور حالیہ (2020) دہلی تشدد جیسے واقعات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حکمراں جماعتوں کی جانب سے ہندو قوم پرستی کے نام پر ابتک صرف نفرت اور تشدد کو ہوا دی گئی ہے، اور یہ پالیسی قوم کی تعمیر کے بجائے درحقیقت اس کی تقسیم اور کمزوری کا پیش خیمہ ہے۔
اس پرفریب طریقے سے تعمیر کے پردہ میں تخریب کے ممکنہ نتائج کئی رُخ سے ہمارے سامنے آتے ہیں:
سماجی تقسیم: ہندوتوا کے نام پر ہندو قوم کو بیدار کرنے کی یہ کوشش دراصل سماج کو ہندو اور غیر ہندو (خاص طور پر مسلمان) کے درمیان تقسیم کو گہرا کرتی ہے۔ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھتی ہے، جو بہرصورت ہندوستان کی قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہے۔
جذباتی استحصال: ہندو عوام کے مذہبی جذبات کو سیاسی فائدے کے لیے تو استعمال کیا جاتا ہے، مگر اس سے ان کی معاشی بدحالی، تعلیم یا صحت جیسے بنیادی مسائل قطعاً حل نہیں ہوتے۔ نتیجتاً، قوم کی حقیقی ترقی دباؤ میں رہتی ہے۔
جبر اور آمریت کا خطرہ: بلڈوزر سیاست، میڈیا پر کنٹرول اور مخالف آوازوں کو دبانے سے جمہوریت کی وہ قدریں کمزور ہوتی ہیں، جو ایک صحت مند قوم کے لیے ضروری ہیں۔
اس لیے، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ طاقت اور دھوکے سے قوم کو بیدار کرنے کی یہ کوشش عارضی طور پر سیاسی کامیابی تو لا سکتی ہے، مگر طویل مدتی طور پر سماج کو تعمیر کرنے کے بجائے اسے کھوکھلا اور تقسیم کر جائے گی۔ کیونکہ اخلاص کے بغیر بیداری محض ایک شور ہوتی ہے، اور یہ سچائی ہمارے عنوان کی روح کے عین مطابق ہے کہ قوم کی حقیقی بیداری سچائی اور گہرے جذبے سے ہی ممکن ہے، نہ کہ زور زبردستی سے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہندوستان کا مسلم سماج اس چیلنج کا کیسے مقابلہ کرے؟ کیسے وہ اپنی ہم وطن برادریوں کو یہ یقین دلائے کہ اہلِ سیاست انہیں جس راہ پر لے جا رہے ہیں، اس راستے پر ان کے مستقبل کی موت کھڑی ہے، جس کے خونی پنجے میں نسلِ نو کی تباہ کاریوں کا سامان چھپا ہے؟
اس تناظر میں درج ذیل اقدامات پر غور کیا جا سکتا ہے:
لیکن پہلے یہ حقیقت ضرور جان لیں کہ ہندوستان کی موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کے لیے اپنا ایک فعال اور تعمیری کردار ادا کرنا نہ صرف ان کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہے، بلکہ قومی ہم آہنگی کو بحال کرنے کے لیے بھی اہم ہے۔ کیونکہ برسرِ اقتدار پارٹیوں کے ہندوتوا بیانیے نے نہ صرف ہندوستانی سماج کو تقسیم کیا بلکہ مسلم کمیونٹی کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا ہے۔
1. اخلاص اور عمل سے رابطہ قائم کرنا
• مثبت کردار کی نمائندگی: مسلمانوں کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ہندوستان کی ترقی اور خوشحالی میں برابر کے شریک ہیں۔ سماجی خدمات، تعلیم، اور رفاہی کاموں کے ذریعے وہ اپنے اخلاص کو ظاہر کرنے کی صلاحیت بھرپور رکھتے ہیں، جو سیاسی پروپیگنڈے کے مقابلے میں زیادہ مفید ہے۔
• بین المذاہب مکالمہ: مسلم رہنما اور کمیونٹی ممبران مقامی سطح پر ہندو برادریوں کے ساتھ کھلے دل سے بات چیت شروع کریں۔ مشترکہ ثقافتی پروگرام اور سماجی مسائل پر مل کر کام کرنے سے اعتماد کو بحال کریں۔
2. سیاسی پروپیگنڈے کا توڑ
• حقائق پر مبنی بیانیہ: مسلم کمیونٹی کو سوشل میڈیا، مقامی میٹنگز، اور تعلیمی فورمز کے ذریعے یہ پیغام عام کرنا چاہیے کہ فرقہ وارانہ سیاست نہ صرف اقلیتوں بلکہ اکثریت کے لیے بھی وبالِ جان ہے۔ مثال کے طور پر، معاشی بدحالی، بے روزگاری، اور مہنگائی جیسے مسائل مذہب سے بالاتر ہیں، اور ان سب کا تعلق حکمراں جماعتوں کی اپنی سیاسی ناکامیوں سے ہے، نہ کہ کسی ایک خاص کمیونٹی سے۔
• تاریخی تناظر پیش کرنا: ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں مسلم اور ہندو کرانتی کاریوں کی مشترکہ جدوجہد (جیسے مولانا ابوالکلام آزاد اور گاندھی کا اتحاد وغیرہ) کو اُجاگر کر کے یہ دکھایا جا سکتا ہے کہ مل کر چلنا ہی سماج کی اصل طاقت ہے، نہ کہ تقسیم۔
3. تعلیم اور بیداری کا فروغ
• اپنی نسل کو تیار کرنا:
مسلم کمیونٹی کو اپنی نوجوان نسل کو تعلیم، تنقیدی سوچ، اور سماجی شعور سے آراستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ نفرت کے بیانیے کا مقابلہ مکمل خوداعتمادی کے ساتھ کر سکے۔ اور یقین جانئیے کہ ہمارے تعلیم یافتہ مسلم نوجوان ہندو برادری کے ساتھ اس چیلنج میں پُل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
• ہم وطنوں کو سمجھانا: سادہ اور قابلِ فہم انداز میں یہ پیغام دینا کہ موجودہ راستہ (فرقہ واریت، تشدد، اور جبر) نہ صرف اقلیتوں بلکہ اکثریتی برادری کی نسلوں کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ مثال کے طور پر، معاشی پسماندگی اور سماجی تناؤ سے کوئی بھی کمیونٹی محفوظ نہیں رہ سکتی۔
4. قانونی اور جمہوری راستوں کا استعمال
• جمہوری آواز بلند کرنا: مسلم کمیونٹی کو ووٹ کی طاقت اور قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہیے، لیکن اُسے غیر فرقہ وارانہ طریقے سے۔ مثال کے طور پر، سی اے اے (CAA) اور این آر سی (NRC) اور حالیہ ایشو (وقف بورڈ ترمیمی بل) کے خلاف احتجاج میں دیگر کمیونٹیوں کی شمولیت اس کی ایک کامیاب مثال ہے۔
• اتحاد کی حمایت: میثاقِ مدینہ کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اوّلاً ہمیں ہندو، سکھ، عیسائی، اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ محاذ بنانا ہوگا، جو فرقہ واریت کے بجائے انصاف، مساوات، اور ترقی کی بات کرے۔
5. مستقبل کے خطرات کو واضح کرنا
• نسل کی تباہی کا پیغام: تمام کمیونٹیز کو یہ باور کرانا ہوگا کہ موجودہ سیاسی روش ملک کو نفرت، تشدد، اور معاشی زوال کی طرف لے جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر، ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات نے دونوں طرف کے خاندانوں کو معاشی اور جذباتی طور پر تباہ کیا ہے، جن کے سچے اعداد و شمار اور واقعات کو انصاف پسند شہریوں کے سامنے رکھا جائے۔
• مثبت متبادل کی پیشکش: یہ بتانا کہ اگر ہم نفرت کے بجائے باہمی تعاون اور اخلاص کی راہ اختیار کرتے ہیں، تو دونوں کمیونٹیوں کی نسلیں ترقی، امن، اور خوشحالی میں پروان چڑھیں گی۔
عملی مثال
کیرالا اور تمل ناڈو جیسے علاقوں میں، جہاں مسلم کمیونٹی نے تعلیم، تجارت، اور سماجی خدمات میں نمایاں کردار ادا کیا، وہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی زیادہ مضبوط ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخلاص اور عمل سے قائم کردہ رابطہ سیاسی پروپیگنڈے کو ناکام بنا سکتا ہے۔
چیلنج
ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اب دفاعی پوزیشن سے نکل کر ایک فعال، تعمیری، اور جامع کردار ادا کریں۔ اور یاد رکھیں کہ سیاسی بدخواہوں کے راستے کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا، کیونکہ یہ راستہ طاقت اور دھوکے پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ مخلصانہ جذبوں سے بیدار ہونے والی قوم پائیدار ترقی اور امن کی ضامن ہوتی ہے۔ لیکن اس پیغام کو ہم وطن برادریوں تک پہنچانے کے لیے اُسی اعلیٰ درجہ کے صبر، حکمت، اور جہدِ پیہم کی ضرورت ہے، جس کی کرنیں محسنِ انسانیت جنابِ محمد رسول اللہ کے سینۂ مبارکہ سے پھوٹی ہیں، تاکہ نبوی کردار و عمل کے فیض سے دونوں کمیونٹیوں کی نسلیں اس سیاسی بحران کی تباہی سے بچائی جا سکیں اور ایک بہتر مستقبل کی راہ ہموار ہو۔
کیونکہ پوری دنیا میں صرف پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہی ہے جس کی بنیاد پر یہ ضمانت دی جا سکتی ہے کہ اخلاص، کردار کی پاکیزگی، اور عمل کی صداقت سے نہ صرف دشمنیوں کو محبت میں بدلا جا سکتا ہے، بلکہ ایک ایسی قوم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے جو وقت کے ہر امتحان میں کامیاب ہو سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے اُس ابتدائی دور میں، کہ جب وہاں کی دشمنی اپنے عروج اور مخالفت شباب پر تھی، طاقت یا جبر کے بجائے صبر، حکمت، اور اخلاقِ حسنہ سے کام لیا۔ سیرتِ رسول کا یہی وہ بنیادی پہلو ہے جس کی روشنی میں ہندوستانی مسلمانوں کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ وہ موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کس طرح سے کریں؟
مکہ کے دور سے سبق
اخلاص کی طاقت: جب پیغمبرِ اسلام نے دعوتِ حق کا آغاز کیا، تو آپ کے پاس نہ کوئی سیاسی طاقت تھی، نہ فوج، اور نہ ہی معاشی وسائل۔ لیکن آپ کے اخلاص اور سچائی نے لوگوں کے دلوں کو موہ لیا۔ مثال کے طور پر، آپ کی امانت و دیانت کا یہ عالم تھا کہ دشمن بھی آپ کو "صادق" اور "امین" کہتے تھے۔ اسی طرح، ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے کردار و عمل سے یہ دکھانا ہوگا کہ وہ اپنے وطن کے صرف خیرخواہ ہیں۔
صبر اور تحمل: مکہ میں 13 سال تک آپ نے ظلم و ستم برداشت کیے۔ طائف کا سفر، معاشی بائیکاٹ، مگر ان تمام جانی و مالی حملوں کے باوجود آپ نے کبھی کسی کو بددعا نہ دی۔ بالآخر رسول اللہ کے اس صبر نے آہستہ آہستہ دشمنوں کے ضمیر کو جگا ڈالا۔ ہندوستان میں بھی مسلم کمیونٹی کو اشتعال انگیزیوں کے باوجود تحمل سے کام لینا ہوگا تاکہ ان کے ہم وطنوں کا ضمیر بھی ان کی نیک نیتی سے جاگ اٹھے۔
نفرت کا جواب محبت سے: نبیٔ رحمت کے اخلاقِ کریمانہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو سفیان اور ہندہ جیسے سخت دشمن بھی بالآخر آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ فتحِ مکہ کے موقع پر آپ کی طرف سے عام معافی کا اعلان اس کا اعلیٰ نمونہ ہے، جس نے مکہ کے لوگوں کے دلوں میں محبت کا وہ دیپ جلایا جس کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوئی۔ اسی طرح مسلم کمیونٹی کو بھی اپنے ہم وطنوں کے ساتھ اسی محبت اور خیرخواہی کا رویہ اپنانا ہوگا، چاہے وہ پروپیگنڈے سے متاثر کیوں نہ ہوں۔
تعمیری کردار: پیغمبرِ اسلام نے محض نعرے نہیں لگائے، بلکہ ایک معاشرہ بنایا—غلاموں کو آزاد کیا، عورتوں کو حقوق دیے، اور معاشی انصاف قائم کیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی سماجی خدمات، تعلیم، اور معاشی شراکت سے اپنا تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ان کا یہ پیغام ان کے عمل سے واضح ہو۔
ہندوستان کے تناظر میں اطلاق
مکہ کے اُس دور کی یہ تعلیمات ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کو ایک واضح راہ دکھا رہی ہیں کہ وہ موجودہ فرقہ وارانہ تناؤ اور سیاسی استحصال کے ماحول میں کیسے اپنے ہم وطنوں کو یہ یقین دلائیں کہ اہلِ سیاست کا راستہ انہیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
اخلاقی برتری قائم کرنا: جیسے پیغمبرِ اسلام نے اپنے دشمنوں کے سامنے بلند اخلاق کا مظاہرہ کیا، اسی طرح مسلمانوں کو نفرت کے جواب میں نفرت نہیں بلکہ نبوی اخلاق کی رَداءِ عفو کو دراز کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر، جب کوئی فرقہ وارانہ تنازعہ ہو، تو تشدد کے بجائے امن کی کوششوں میں پیش قدمی کی جائے۔
• دلوں کو جیتنا: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ابو جہل جیسے دشمنوں کے بجائے ان لوگوں پر توجہ دی جو آوازِ حق سننے کو تیار تھے—جیسے حضرت عمر اور حضرت حمزہ، اور آپ اس میں سو فیصد کامیاب ہوئے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی ان ہندو بھائیوں سے رابطہ بڑھانا چاہیے جو ہنوز پروپیگنڈوں سے متاثر نہیں ہیں، اور انہی کے ذریعے اپنا وسیع تر پیغام پھیلانا چاہیے۔
• تباہی کے نتائج واضح کرنا: جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کو جاہلیت کے مہلک انجام سے خبردار کیا تھا، اسی طرح مسلم کمیونٹی کو اپنے ہم وطنوں کو بتانا ہوگا کہ فرقہ واریت کی یہ راہ نتیجتاً معاشی، سماجی، اور اخلاقی تباہی کا باعث بنے گی۔
گویا پیغمبرِ انسانیت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے بدترین حالات میں اپنی بلندیٔ اخلاق اور پاکیزگیٔ اطوار سے یہ ثابت کیا کہ محبت اور سچائی سے دشمنیوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔ مدبرینِ زمانہ کے سامنے تاریخ کے سفاک ظالموں کی خوں آشام داستانوں کے اوراق بکھرے پڑے ہیں، مگر ان سب میں ایک دامن ایسا بھی ہے جو خونِ ناحق کے ادنیٰ قطرے سے بھی کبھی داغدار نہیں ہوا—اور وہ دامن امن و سلامتی کے اُسی پیامبر کا ہے، جس کی آئینہ صفت زندگی اپنی صداقتوں کے ساتھ چودہ سو سال سے ساری دنیا کے سامنے ہے، مگر آج تک اسے جھٹلایا نہیں جا سکا ہے۔
لہٰذا مسلمانانِ ہند سیرتِ نبوی کی انہی تمام ناقابلِ تردید شہادتوں کی بنیاد پر نہ صرف اپنے ہم وطنوں کے دلوں میں جگہ بنا سکتے ہیں، بلکہ اہلِ سیاست کے جھوٹے بیانیے کو بھی نہایت زیرکی سے بے نقاب کر سکتے ہیں۔ یہ راستہ اگرچہ آسان نہیں، لیکن اس کا ثمر بالیقین پائیدار ہے—اور ہماری یہی پائیداری ایک ایسے ہندوستان کی تعمیر کا سبب بن سکتی ہے جہاں نسلیں نفرت کے بجائے محبت اور باہمی تعاون سے پروان چڑھ رہی ہوں گی۔
مضمون نگار الجامعۃ الاسلامیہ گنج قدیم، رامپور کے استاذ ہیں۔ {alertInfo}