عنوان: | قربانی کرنا ضروری ہے |
---|---|
تحریر: | عمران رضا عطاری مدنی بنارسی |
رب تعالیٰ کی ایک بہترین عبادت قربانی کرنا ہے، قربانی کا مقصد فقط اللہ کی رضا ہو نہ کہ نام و نمود اور ریاکاری، قربانی رب کی بارگاہ میں پیش کرتے وقت یہ بھی ذہن بنائے رکھیں کہ رب نے جو احکامات نازل فرمائے ہیں، اپنے نفس کو قربان کر کے ان پر عمل کر کے اپنی زندگی کو خوبصورت بنانا ہے، آج جانور کا خون رب کے نام پر پیش کر رہا ہوں، ایک دن آنے پر جب ضرورت ہوگی تو اپنی جان، مال، وقت کی قربانی پیش کر کے بارگاہِ خداوندی میں سرخروئی حاصل کروں گا۔
رب کی بارگاہ میں ہمارے جانور کے خون اور گوشت نہیں پہنچتے بلکہ رب کی بارگاہ میں اصل تقویٰ اور نیت دیکھی جاتی ہے، جیسا کہ خود ربِ کائنات ارشاد فرماتا ہے:
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰـكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ [الحج : 37]
اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے۔
لہٰذا جن لوگوں پر قربانی واجب ہے، انہیں چاہیے کہ فقط اللہ کی رضا کے لیے ہر سال عمدہ سے عمدہ ترین جانور رب کی بارگاہ میں پیش کریں! ان شاءاللہ یہ قربانی پل صراط پر ان کے لیے سواری ہوگی اور ان کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ۔
قربانی کی تعریف
مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیتِ تقرب ذبح کرنا قربانی ہے، اور کبھی اُس جانور کو بھی اضحیہ اور قربانی کہتے ہیں جو ذبح کیا جاتا ہے۔ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی اور نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا، ارشاد فرمایا:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ [الكوثر: ٢]
تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔
محترم قارئین! احادیث میں متعدد مقامات پر قربانی کے فضائل اور نہ کرنے کی وعید بیان کی گئی ہے، وعیدوں کا اندازِ بیان بھی اس بات پر دلیل ہے کہ قربانی کرنا صاحبِ استطاعت پر واجب ہے، سرِ دست دو چند ملاحظہ فرمایا:
مَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا [المستدرک، 7565]
مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يَذْبَحْ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا [المستدرک، 7565]
مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا [سنن ابن ماجہ، 3123]
تینوں حدیث کا ماحصل ایک ہے کہ: جو استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔
- علامہ محمد بن عبد الہادی سندھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وَهَذَا يُفِيدُ الْوُجُوبَ [حاشیة السندي على سنن ابن ماجه، ج:2، ص:271]
- علامۃ الہند شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ومثل هذا الوعيد لا يلحق إلا بترك الواجب [لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، ج:3، ص:569]
- علامہ علاء الدین سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: إِنَّ الْأُضْحِيَةَ وَاجِبَةٌ عَلَى الْمُقِيمِينَ [تحفة الفقهاء، ج:3، ص:81]
قربانی کس پر واجب ہے؟
مفسرِ قرآن، شیخ الحدیث مفتی قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں: جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو، یا سونا چاندی نصاب سے کم ہوں، لیکن جس قدر ہیں، ان دونوں کو ملا کر یا سونے یا چاندی کو کسی دوسرے مال کے ساتھ ملا کر، اُن دونوں کی مجموعی قیمت عیدالاضحی کے ایام میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، یوں ہی حاجتِ اصلیہ (یعنی وہ چیزیں جن کی انسان کو حاجت رہتی ہے، جیسے رہائش گاہ، خانہ داری کے وہ سامان جن کی حاجت ہو، سواری اور پہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ زندگی) سے زائد اگر کوئی ایسی چیز ملکیت میں ہو، جس کی قیمت تنہا یا سونے یا چاندی کے ساتھ ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، تو وہ نصاب کا مالک ہے اور اس پر قربانی واجب ہے۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ پر قربانی لازم نہیں ہوگی، کیونکہ آپ کے پاس صرف سونا ہی ہے، ساتھ چاندی، رقم، پرائز بانڈز یا کوئی اور ایسا مال نہیں ہے، جس کے ساتھ مل کر مجموعی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو۔ [قربانی کے فتاویٰ، ص:5]