✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

پلاسٹک سرجری؛ضرورت یا نافرمانی

عنوان: پلاسٹک سرجری؛ضرورت یا نافرمانی
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

پلاسٹک سرجری، جدید میڈیکل سائنس کی وہ شاخ ہے جس کے ذریعے انسانی جسم میں موجود بعض عیوب کو درست کیا جاتا ہے یا ظاہری ساخت کو بدلا جاتا ہے۔ یہ ترمیم کبھی کسی جسمانی نقصان یا بیماری کی اصلاح کے لیے کی جاتی ہے، جیسے جل جانے یا پیدائشی نقص کی صورت میں؛ اور کبھی صرف حسن و جمال میں اضافہ یا خوب صورتی کے فیشن کے طور پر اپنائی جاتی ہے۔

اسلام، ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر، نہ صرف انسانی جسم کی حفاظت کو ایک فطری ذمہ داری قرار دیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ اللہ کی تخلیق میں بلا ضرورت مداخلت سے بھی خبردار کرتا ہے۔

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فقہی مکتب، اسلامی قانون کے ان عظیم ترین سرچشموں میں سے ہے جس نے انسانی افعال کی نوعیت، نیت اور مقاصد کو مرکزی اہمیت دی ہے۔ ان کے نزدیک ہر عمل کو اس کے محرکات کے ساتھ جانچنے کا اصول کارفرما ہے، اور یہی اصول ہمیں پلاسٹک سرجری کے جائز و ناجائز ہونے کے بارے میں گہری بصیرت عطا کرتا ہے۔

اگر پلاسٹک سرجری کا مقصد کسی جسمانی نقصان کو درست کرنا ہو، جیسے کہ آگ سے جلا ہوا چہرہ، پیدائشی کٹے ہوئے ہونٹ یا جسم کا کوئی معذور عضو، تو امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اصولوں کی روشنی میں یہ ترمیم جائز ہے۔ کیوں کہ شریعت نے علاج کو جائز بلکہ بعض صورتوں میں واجب قرار دیا ہے۔

جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تَدَاوَوْا عِبَادَ اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً۔ (سنن ابن ماجہ: 3436)

ترجمہ: اے اللہ کے بندو! علاج کرو، کیوں کہ اللہ نے کوئی مرض ایسا نہیں بنایا جس کی دوا نہ رکھی ہو۔

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اصولِ قیاس اور استحسان کی روشنی میں، اگر کوئی عمل کسی بڑی تکلیف یا ضرر کو دور کرنے کے لیے ہو، اور اس میں ضررِ عام یا فسادِ خلق شامل نہ ہو، تو وہ شریعت میں گنجائش رکھتا ہے۔ چناں چہ reconstructive surgery (اصلاحی سرجری) نہ صرف جائز بلکہ بعض اوقات مستحسن ہو سکتی ہے۔

لیکن دوسری جانب اگر پلاسٹک سرجری کا محرک صرف زیبائش، دکھاوا، یا اللہ کی تخلیق پر عدم اطمینان ہو، تو اس میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سخت قباحت ہے۔ اس کی بنیاد درج ذیل حدیث پر ہے:

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰهِ۔ (صحیح بخاری: 5931)

ترجمہ: اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت فرمائی ان عورتوں پر جو گودنا کرتی ہیں اور کرواتی ہیں، بال اکھاڑتی ہیں اور اکھڑواتی ہیں، دانتوں میں خلا ڈالتی ہیں (خوب صورتی کے لیے) اور اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرتی ہیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت کو غیر ضروری طور پر بدلنا، خواہ وہ خوب صورتی کی نیت سے ہی کیوں نہ ہو، قابلِ مذمت ہے۔ امام ابو حنیفہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس اصول کو تغییرِ خلقِ اللہ (اللہ کی تخلیق میں بلا ضرورت مداخلت) کی بنیاد پر ناجائز قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر کسی عمل کا محرک فقط جمالیاتی خواہش ہے، تو وہ نہ صرف مکروہ بلکہ شریعت کے مقاصد کے خلاف ہے۔ اس سے ایک طرف انسان اللہ کی دی ہوئی تخلیق پر عدم اطمینان ظاہر کرتا ہے، اور دوسری طرف خودپسندی و فتنہ پرستی کو فروغ دیتا ہے۔

اسی طرح فقہ حنفی میں ضرورت اور حاجت کا فرق بہت اہم ہے۔ علاج اور اصل نقص کو دور کرنا ضرورت کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ خوب صورتی بڑھانا محض حاجت یا خواہش ہو سکتی ہے۔ اور صرف حاجت یا خواہش کے لیے جسم میں غیر فطری تبدیلی ناجائز ہو جاتی ہے۔

اس میں ایک فقہی قاعدہ یہ بھی کارفرما ہے:

الضَّرَرُ يُزَال۔

ترجمہ: ضرر کو دور کیا جاتا ہے۔

یعنی اگر کوئی سرجری کسی ضرر یا اذیت کو دور کر رہی ہے، تو اس کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ ضرر موجود ہی نہ ہو، صرف ظاہری کمی یا نفس کی خواہش ہو، تو پھر وہ عمل تغییرِ خلقِ اللہ کہلائے گا۔

اس طرح امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صرف وہ پلاسٹک سرجری جائز ہے جس میں واقعی جسمانی یا نفسیاتی ضرر کا علاج کیا جا رہا ہو۔ باقی تمام صورتوں میں یہ عمل ناجائز، مکروہ تحریمی یا حرام کے دائرے میں آ سکتا ہے، خاص طور پر جب اس سے فطرت کے اصولوں کو چیلنج کیا جا رہا ہو۔

سائنسی سطح پر بھی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ cosmetic surgery کے معاشرتی اثرات میں خوداعتمادی کی بجائے خودفریبی، دوسروں سے موازنہ، اور مصنوعی خوب صورتی کا ایک فریب پیدا ہو رہا ہے، جو معاشرتی اضطراب، حسد، اور ذہنی دباؤ کو جنم دیتا ہے۔ ایسے میں اسلام کا فطری اور متوازن اصول۔ جسم کی اصلاح، نہ کہ تخریب۔ ہی انسان کے لیے سب سے محفوظ اور مستقل راہ ہے۔

اگر پلاسٹک سرجری علاج، ضرر کی دوری، یا کسی حقیقی معذوری کو ختم کرنے کے لیے ہو، تو وہ جائز ہے۔

لیکن اگر وہ فقط زیبائش، فیشن، یا اللہ کی تخلیق کو بدلنے کی خواہش پر مبنی ہو، تو ناجائز اور حرام کے قریب ہے۔

یہی توازن اسلامی شریعت کا حسن ہے، جو نہ تو انسان کی ضرورت کو نظرانداز کرتا ہے، اور نہ اسے خواہشات کی پیروی کا آزاد راستہ دیتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں