عنوان: | اگر میں پرندہ ہوتی |
---|---|
تحریر: | بنت اسلم برکاتی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
اگر میں پرندہ ہوتی، تو دنیا میں گھر بنانے کی بجائے، میں بے گھر رہنا پسند کرتی۔۔۔ اس لیے کہ میں اپنی صبح مکہ مکرمہ کی پُر نور اور پُر کیف فضا میں کرتی۔۔۔ دوپہر کعبۃ اللہ کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں کرتی۔۔۔
جب آفتاب مغرب کی جانب رواں ہونے لگتا، تو میں پرواز کر کے شہرِ نبی ﷺ کی معطر و منور گلیوں میں جانا پسند کرتی۔۔۔ کچھ وقت ان پیاری پیاری گلیوں میں ادھر سے ادھر پھدکتی؛ جن گلیوں سے حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ کا گزر ہوا۔۔۔
جب سورج اپنی روشنی سمیٹ لیتا، اور رات کی کالی چادر پھیلنی شروع ہوتی، میں اپنے آقا و مولا حضور جانِ جاناں ﷺ کی بارگاہ میں حاضری دیتی۔۔۔ سبز سبز گنبد کے سامنے ادب و احترام کے ساتھ صلاۃ و سلام کے گل ہائے عقیدت پیش کرنے کے بعد، وہیں پر کچھ وقت محو استراحت ہوتی۔۔۔
اگر کبھی دل گھبراتا، چین نہ آتا، یا گناہوں کے بوجھ سے میں نڈھال ہو جاتی، تو حضور تاجدار ختم نبوت ﷺ کی سنہری جالیوں کا بوسا لیتی، اور پیارے پیارے روضہ اقدس کو چومتی ہوئی دھول میں خود کو لوٹ پوٹ کر، اپنے گنہگار جسم و روح کو پاک کرتی۔۔۔
اگر میں پرندہ ہوتی تو صبح مکے کی وادیوں میں اور شام مدینے کی گلیوں میں کرتی۔۔۔ اور یہ کوئی ایک دن کا معمول نہ ہوتا، بلکہ اپنی پوری زندگی یوں ہی پرواز کرتے ہوئے گزار دیتی۔۔۔ اگر میں پرندہ ہوتی۔۔۔