دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

اقربا پروری عدل الہی کے خلاف بغاوت

عنوان: اقربا پروری عدل الہی کے خلاف بغاوت
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

اس مضمون میں ہم نے اقربا پروری جیسے خطرناک سماجی ناسور کو اسلامی تعلیمات، احادیثِ نبویہ، فقہِ حنفی، اور ہندوستانی معاشرتی تناظر میں پرکھا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی مذمت، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فکر میں عدل و اہلیت کی بنیاد، موجودہ نظام میں اس کے تباہ کن اثرات، اور اسلام کی پیش کردہ اصلاحی رہنمائی کو مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

اقربا پروری (Nepotism) وہ باطنی تعفن ہے جو بظاہر محبت، خیر خواہی اور وفاداری کی خوش بو لیے ہوئے ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اجتماعی عدل، سماجی توازن، اور اخلاقی شفافیت کا دشمن ہے۔ رشتہ داری، تعلق داری، یا ذاتی وابستگی کی بنیاد پر کسی کو غیر مستحق مقام یا منصب دینا، دراصل امانت میں خیانت اور عدلِ الٰہی کے خلاف بغاوت ہے۔ اور اسلام اس فتنہ کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا (النساء:58)

ترجمۂ کنز الایمان: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انھیں سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کروبے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔

یہ آیت نہ صرف اقربا پروری کی نفی ہے بلکہ اس امر کا اعلان بھی ہے کہ اسلامی معاشرہ شخصیت پرستی، تعلق پرستی، اور عصبیت پر نہیں، بلکہ اہلیت، عدل، اور امانت داری پر قائم ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی:

قالَ رسولُ اللَّهِ ﷺ: إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَىٰ غَيْرِ أَهْلِهِ، فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ. (البخاري،6496)

ترجمہ: جب امور (ذمہ داریاں، عہدے) نااہلوں کے سپرد کر دیے جائیں، تو قیامت کا انتظار کرو۔

یہ وہ اجتماعی المیہ ہے جس کی پیش گوئی بھی کی گئی اور جسے ایمان و امانت کی مخالفت قرار دیا گیا۔

اقربا پروری امام اعظم ابو حنیفہ کی فکر کی روشنی میں

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہی بصیرت میں عدل کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ آپ کے اصول یہ تعلیم دیتے ہیں کہ کسی بھی ذمہ داری، فتویٰ، قضا، یا ولایت کا اہل وہی ہے جو علم، تقویٰ، اور امانت کا جامع ہو۔ آپ فرمایا کرتے تھے:

جب معاملہ اہل کے بجائے صرف رشتہ دار کو دے دیا جائے، تو یہ نہ صرف ظلم ہے بلکہ دین کے نظام پر حرف ہے۔

آپ نے اپنے شاگرد امام ابو یوسف کو قضا کے منصب کے لیے تربیت دی، لیکن اپنی اولاد کو اس ذمہ داری کے لیے پیش نہ کیا۔حالاں کہ اہل تھے۔ تاکہ نظریۂ عدل اور تقویٰ کو عملی طور پر نمایاں کیا جا سکے۔

ہندوستانی تناظر میں اقربا پروری

ہندوستان جیسے وسیع، متنوع اور جمہوری معاشرے میں اقربا پروری کئی شکلوں میں موجود ہے: سرکاری نوکریوں میں، تعلیم میں، سیاست میں، اور حتیٰ کہ مذہبی و سماجی اداروں میں بھی۔ نیشنل اسٹیٹسٹیکل آفس اور مختلف تحقیقی مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ:

  1. اکثر سرکاری ملازمتوں اور اسکالرشپس میں تعلق داری اور سفارش کا اثر ہوتا ہے۔
  2. اہل نوجوان مایوسی، بےاعتمادی اور احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔
  3. اداروں کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اور معاشرے میں بے چینی بڑھتی ہے۔

یہ سب وہ علامتیں ہیں جن کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

قالَ رَسولُ اللهِ ﷺ: مَن وَلَّى رَجُلًا علَى عِصَابَةٍ، وفِيهِمْ مَن هُوَ أَرْضَىٰ لِلَّهِ مِنْهُ، فَقَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ۔ (کنز العمال: 14572)

ترجمہ: جس نے کسی شخص کو کسی جماعت پر (حکومت یا قیادت کے لیے) مقرر کیا، حالاں کہ ان میں وہ شخص موجود تھا جو اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ تھا، تو اس نے اللہ، اس کے رسول اور مؤمنین کے ساتھ خیانت کی۔

اقربا پروری کے تباہ کن اثرات

  1. اقربا پروری کوئی معمولی سماجی کمزوری نہیں، بلکہ ایک نظام شکن بیماری ہے جس کے اثرات ہمہ گیر ہوتے ہیں:
  2. قابلیت کی ناقدری، جو مایوسی، ہجرت، یا احساسِ بے مقصدی کو جنم دیتی ہے۔
  3. اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، کیوں کہ اہل افراد کو موقع نہیں ملتا۔
  4. سماجی اعتماد ٹوٹتا ہے اور قانون کی بالادستی کمزور ہو جاتی ہے۔
  5. اخلاقی تنزلی پیدا ہوتی ہے۔ لوگ رشوت، سفارش، اور تعلقات کو ہی ترقی کا ذریعہ سمجھنے لگتے ہیں۔

اسلام کی رہنمائی حل بھی، تریاق بھی

اسلام محض تنقید پر نہیں بلکہ اصلاح اور تعمیر پر قائم دین ہے۔ اقربا پروری کے خاتمے کے لیے اسلام درج ذیل رہنمائی پیش کرتا ہے:

عدل کو معیار بنانا؛ خواہ فیصلہ اپنے خلاف کیوں نہ ہو۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَۚ اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْاۚوَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا (النساء:135)

ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ اللہ کے لیے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہرحال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑواور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔

  1. شوریٰ اور مشورہ کی بنیاد پر انتخاب، نہ کہ شخصی خواہش یا خاندانی دباؤ پر۔
  2. شفاف نظامِ تقرری، جو سفارش، رشوت، اور ذاتی وابستگی سے پاک ہو۔
  3. ذمہ داری کا احساس: کہ ہر عہدہ امانت ہے، اور اس میں خیانت دنیا و آخرت کی بربادی ہے۔

عدل کی روشنی میں اصلاحِ معاشرہ

اقربا پروری وہ ناسور ہے جو عدل کے ستونوں کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا ہے۔ اسلام، جو سراپا عدل اور نور ہے، ہمیں سکھاتا ہے کہ رشتہ داری، تعلق داری، یا ذاتی وفاداری کے نام پر امانتوں کی بندر بانٹ نہ کی جائے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم: اپنی ذات سے شروعات کریں، اداروں میں عدل کی وکالت کریں، نوجوانوں کو قابلیت کی بنیاد پر مواقع دیں، اور ہر سطح پر اسلامی اصولِ عدل کو نافذ کرنے کی جدوجہد کریں۔

کیوں کہ جب تک امانت اہل کے سپرد نہ ہو، معاشرہ ظالموں کا شکار، اور قابلیت بےقدری کا نشان بنی رہے گی۔

اس مضمون میں ہم نے اقربا پروری جیسے خطرناک سماجی ناسور کو اسلامی تعلیمات، احادیثِ نبویہ، فقہِ حنفی، اور ہندوستانی معاشرتی تناظر میں پرکھا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی مذمت، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فکر میں عدل و اہلیت کی بنیاد، موجودہ نظام میں اس کے تباہ کن اثرات، اور اسلام کی پیش کردہ اصلاحی رہنمائی کو مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں