دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

فیمنزم فکر نو یا فتنہ

عنوان: فیمنزم فکر نو یا فتنہ
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

یہ مضمون دورِ جدید کی اُس فکری اور سماجی تحریک پر مبنی ہے جس نے صدیوں پر محیط انسانی تاریخ میں عورت کے مقام، حقوق اور معاشرتی کردار کے حوالے سے ایک عالمی مکالمہ پیدا کیا۔ فیمنزم، یا نسوانی تحریک، اپنے آغاز سے لے کر آج تک کئی فکری لہروں سے گزرتی رہی ہے، جنہوں نے کبھی مظلومیت کے خلاف آواز بلند کی، اور کبھی آزادی کے نام پر اقدار و فطرت کو چیلنج کیا۔ یہ تحریر نہ صرف فیمنزم کی تاریخی اور نظریاتی بنیادوں کا جائزہ پیش کرتی ہے، بلکہ اسے اسلامی اصولوں، قرآن و سنت کی تعلیمات، اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہی بصیرت کے آئینے میں پرکھتی ہے۔

اس میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام نے عورت کو کس طرح ایک باوقار مقام عطا کیا، اور یہ کہ آج کے زمانے میں کس انداز سے مغربی فیمنزم اسلامی معاشروں کے لیے نظریاتی چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ اس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ فیمنزم کی بعض جہات شریعت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو سکتی ہیں، جب کہ بعض دیگر اس سے واضح انحراف رکھتی ہیں۔ مضمون میں ان سوالات کا بھی تحقیقی جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ موجودہ معاشرے میں مسلم خواتین کس طرح اپنے دینی و معاشرتی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے سماجی انصاف کی تحریکوں کا حصہ بن سکتی ہیں۔

یہ تجزیہ ہندوستانی تناظر میں خاص طور پر اہم ہے، جہاں ایک جانب عورت کو روایتی جبر، تعلیم سے محرومی، اور وراثت سے بے دخلی جیسے مسائل کا سامنا ہے، اور دوسری طرف مغربی تحریکوں کی اندھی تقلید اسلامی اخلاقیات، حجاب، اور خاندانی نظام کو کمزور کر رہی ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلام کا اعتدال پسند راستہ کیا ہے، اور وہ کیسے عورت کو عزت، آزادی اور حدود کے ساتھ مقام دیتا ہے۔ یہی اس مضمون کا اصل نکتۂ ہے۔

فیمنزم اور اس کی فکری بنیادیں

فیمنزم کی تحریک کا آغاز انیسویں صدی میں یورپ اور امریکہ میں ہوا، جب خواتین نے تعلیم، ووٹ، جائیداد، اور ملازمت جیسے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ یہ تحریک وقت کے ساتھ کئی لہروں میں ترقی کرتی گئی۔ پہلی لہر سیاسی و قانونی حقوق کے لیے، دوسری لہر معاشرتی آزادی کے لیے، تیسری لہر صنفی شناخت کی بحث کے لیے، اور چوتھی لہر سوشل میڈیا اور body autonomy جیسے مسائل کے گرد گھومتی ہے۔

لیکن ان میں بعض نظریات جیسے gender neutrality اور personal liberty without divine accountability" اسلامی اقدار سے ٹکراتے ہیں۔ مثلاً یہ تصور کہ حجاب ایک جبر ہے، یا خاندان کا ادارہ عورت کی آزادی کے خلاف ہے۔ اسلامی فکر ان تصورات کو نہ صرف مسترد کرتی ہے، بلکہ انہیں فطرت کے خلاف بغاوت قرار دیتی ہے۔

اسلام اور عورت

اسلام نے عورت کو وہ مقام عطا کیا جس کی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍؕوَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕوَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًاؕوَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕوَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠ (البقرہ: 228)

ترجمۂ کنز الایمان: اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک اور انہیں حلال نہیں کہ چھپائیں وہ جو اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کیااگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے شوہروں کو اس مدت کے اندر ان کے پھیر لینے کا حق پہنچتا ہے اگر ملاپ چاہیں اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خَیرُکُم خَیرُکُم لِأَھلِہ، وَأَنَا خَیرُکُم لِأَھلِی (ترمذی: 3895)

ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہتر ہو، اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں۔

اسلام نے عورت کو ماں، بیٹی، بیوی، اور بہن کے طور پر باوقار مقام دیا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بطور تاجرہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بطور معلمہ و فقیہ، اور حضرت شفاء بنت عبداللہ بطور منتظمِ بازار۔ یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام نے عورت کو سماج میں کردار ادا کرنے کی مکمل اجازت دی۔

فقہ حنفی میں عورت کا مقام

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی اقوال اور اصولوں میں عورت کے حقوق کو نہایت واضح اور متوازن طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آپ کے نزدیک عورت کا نکاح بالغ ہونے کے بعد اس کی مرضی کے بے غیر جائز نہیں، اگرچہ ولی کا مشورہ معتبر ہے۔ آپ نے عورت کی مالی خودمختاری کو بھی تسلیم کیا؛ چناں چہ عورت اپنے مال کی مالک ہے، اور اس کی اجازت کے بے غیر اس کے مال میں تصرف جائز نہیں۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیوی کے نفقہ، مہر، وراثت اور لباس تک کے تفصیلی مسائل میں عورت کی عزت و کرامت کو اولیت دی۔ ان کے اصولوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام عورت کو نہ صرف حقوق دیتا ہے بلکہ احترام کی بنیاد پر اس کا سماجی مقام متعین کرتا ہے۔

ہندوستانی معاشرے میں فیمنزم کا چیلنج

ہندوستان جیسے معاشرے میں، جہاں ایک طرف جہیز، ونی، ستی، اور بیوہ کی محرومیاں ماضی میں عورت پر ظلم کے نمائندہ رہے ہیں، وہاں آج بھی بعض طبقات میں خواتین تعلیم، وراثت، اور فیصلہ سازی سے محروم ہیں۔ دوسری طرف شہری تعلیم یافتہ طبقے میں مغربی فیمنزم کے بعض نعرے، جیسے میرا جسم میری مرضی، اسلامی اقدار پر کھلا حملہ ہیں، جو عورت کی آزادی کو مادر پدر آزادی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلامی فیمنزم ایک معتدل متبادل

یہ وقت کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشرے ایک ایسا اسلامی فیمنزم فروغ دیں جو خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف کھڑا ہو، لیکن دین کے اخلاقی و خاندانی نظام کو چیلنج کیے بے غیر۔ اس میں عورت کو تعلیم، معاش، صحت، اور سماجی شرکت کے مواقع دیے جائیں، لیکن اس کے وقار، حجاب، اور شرعی حدود کی حفاظت کے ساتھ۔

فیمنزم ایک عالمی تحریک ہے جو کئی جگہ عورت کے لیے بہتری کا ذریعہ بنی، لیکن اس کے ساتھ ایک تہذیبی کشمکش بھی جڑی ہے۔ اسلامی تعلیمات نے عورت کو جو مقام دیا، وہ نہ صرف عدل پر مبنی ہے بلکہ فطرت کے عین مطابق بھی ہے۔ آج کی مسلم خواتین کو چاہیے کہ وہ خود اپنے دین کی تعلیمات سے روشنی حاصل کرتے ہوئے معاشرتی کردار ادا کریں، اور مغرب سے آنے والے ہر بیانیے کو بے غیر پرکھے قبول نہ کریں۔

ایسی تحریری کوششیں اسی سمت میں ایک قدم ہیں۔ جہاں عورت کے حقوق کی بات ہو، لیکن وحی کی روشنی میں، اور تہذیب کی حفاظت کے ساتھ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں