دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

لبرلزم آزادی یا تہذیبی انتشار

عنوان: لبرلزم آزادی یا تہذیبی انتشار
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

اس مضمون کی فکری بنیاد امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس تعبیر پر رکھی گئی ہے:

العقل يُستنار به، لا يُحتكم إليه۔

ترجمہ: عقل سے روشنی حاصل کی جاتی ہے، لیکن اسے فیصلہ کن اتھارٹی نہیں بنایا جا سکتا۔

یہی اصول ہمیں لبرلزم جیسے جدید مغربی نظریے کے تجزیے میں رہنمائی دیتا ہے کہ آیا اس کی بنیاد فطرت اور وحی پر ہے یا محض انسانی خواہشات اور عقل پر۔ ہم اس مضمون میں اسلامی عقائد، امام ابو حنیفہ کے اصولی رویے، اور ہندوستانی معاشرتی تناظر کے حوالے سے لبرلزم کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔

لبرلزم کی تعبیر اور فکری بنیاد

لبرلزم مغرب کا پیدا کردہ وہ نظریہ ہے جو انسان کی مکمل انفرادی آزادی، ریاستی غیرمداخلت، اور سیکولر طرزِ حیات پر قائم ہے۔ بظاہر یہ آزادی، مساوات اور حقوق کی بات کرتا ہے، لیکن اس آزادی کی کوئی الٰہی یا اخلاقی سرحد نہیں ہوتی۔ 18ویں صدی میں یورپ میں کلیسائی جبر کے خلاف اٹھنے والی تحریک نے جب عقل و انسان کو مطلق معیار قرار دیا تو وحی، الٰہیات، اور اجتماعی روحانیت پسِ پشت چلی گئی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں انسان نے رب کی بندگی سے آزادی کو نجات سمجھنا شروع کیا۔ لیکن اسلام میں فرد کو جو آزادی حاصل ہے وہ عبودیتِ الٰہی کے دائرے میں مشروط ہے، نہ کہ خواہش پرستی کے تابع۔

اسلامی فکر

اسلام میں آزادی کا تصور موجود ہے، لیکن یہ آزادی شریعت کے تابع ہے۔ قرآن مجید اعلان کرتا ہے:

اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُؕ-اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ (الفرقان:43)

ترجمۂ کنز الایمان: کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنے جی کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں لبرلزم اسلام سے جدا ہو جاتا ہے، کیوں کہ وہاں انسان خواہش کا تابع بن جاتا ہے۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ میں عقل کو بڑی اہمیت حاصل ہے، لیکن وہ عقل کو وحی کے تابع رکھتے ہیں۔ ان کے اجتہادات میں قیاس و رائے موجود ہے، لیکن وہ کبھی بھی نصوصِ شرعیہ سے بالا تر نہیں ہوتے۔ ان کا اصول یہی تھا کہ عقل وحی کی روشنی میں فیصلہ کرے، نہ کہ وحی پر حاکم بنے۔ یہی توازن آج کے فکری بحران میں سب سے بڑی رہنمائی ہے۔

لبرلزم کی فکری کمزوریاں

لبرلزم کا سب سے بڑا تضاد یہی ہے کہ یہ فرد کو مطلق آزادی دیتا ہے، لیکن اس آزادی کے نتیجے میں خاندانی نظام، اخلاقی معیار، اور روحانی توازن ختم ہو جاتا ہے۔ لامحدود آزادی کا تصور دراصل اجتماعیت کا انکار ہے، جب کہ اسلام میں آزادی کے ساتھ ذمے داری، اخلاق، اور معاشرتی توازن جڑا ہوتا ہے۔

لبرلزم میں حق و باطل کا کوئی قطعی معیار نہیں، بلکہ ہر فرد کو اپنی پسند سے زندگی گزارنے کا حق دیا جاتا ہے۔ یہ اخلاقی نسبیت کا نظریہ ہے، جہاں خیر و شر کا فیصلہ وحی نہیں بلکہ نفس کرتا ہے۔ دوسری طرف اسلام میں وحی ہی آخری معیار ہے۔ جب مذہب کو نجی معاملہ بنا دیا جائے، اور قانون سازی انسانی جذبات پر مبنی ہو، تو نہ صرف روحانیت ختم ہوتی ہے بلکہ تہذیبی انارکی بھی جنم لیتی ہے۔

ہندوستانی معاشرہ اور لبرل اثرات

ہندوستان میں لبرلزم کا اثر جدید تعلیم، میڈیا، اور عدالتی نظام میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن گہرائی سے جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہندوستانی سماج کی اکثریت اب بھی مذہبی، خاندانی اور تہذیبی اقدار سے جڑی ہوئی ہے۔

India Today Youth Survey 2023 کے مطابق، 65% نوجوان اپنی مذہبی شناخت کو اہم مانتے ہیں، اور 53% افراد آزادی کے ساتھ اخلاقی حدود کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ رجحان بتاتا ہے کہ لبرلزم اپنی مغربی شکل میں ہندوستان میں مکمل فطری قبولیت حاصل نہیں کر سکا۔ بلکہ یہاں اس کے اثرات ایک تہذیبی کشمکش کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔

نوجوان نسل کا فکری بحران

نوجوان نسل اس وقت ایک عجیب فکری تنازع کا شکار ہے۔ Gallup Poll 2024 کی رپورٹ کے مطابق 45% نوجوان لبرل اقدار سے متاثر ہیں، لیکن وہ مذہب سے بھی مکمل طور پر الگ نہیں ہونا چاہتے۔ یہی وہ کشمکش ہے جو ذہنی انتشار، روحانی اضطراب اور فکری عدم توازن کو جنم دیتی ہے۔ نوجوانوں کے ذہن میں اکثر یہ سوال گردش کرتا ہے: کیا میں جدید بھی رہ سکتا ہوں اور دین دار بھی؟

اسلام اس سوال کا واضح جواب دیتا ہے: ہاں! بشرط کہ تمہاری جدیدیت، وحی کی اطاعت سے متصادم نہ ہو۔

موجودہ چیلنجز اور اصلاحی نکات

لبرلزم کے زیر اثر جو خرابیاں جنم لے رہی ہیں، ان میں خاندانی بگاڑ، ہم جنس پرستی، نکاح سے گریز، والدین کی نافرمانی، اور بے مقصد تعلیم جیسے عوامل شامل ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس نظریے کو پھیلانے میں مزید کردار ادا کیا ہے، جہاں اخلاقی حدود ختم ہو چکی ہیں۔

ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلامی فکر کو جدید زبان میں پیش کریں، تاکہ نوجوان نسل کے ذہنوں تک وہ مؤثر انداز میں پہنچے۔ دینی و عصری علوم کا امتزاج تعلیمی اداروں میں رائج کیا جائے۔ مذہب کو صرف عبادات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ معاشرتی فریم ورک جیسے نکاح، خاندان، پردہ، شرم و حیا اور اخلاقیات میں بھی زندہ کیا جائے۔ نوجوانوں کی فکری تربیت کی جائے تاکہ وہ لبرلزم کے آزادی والے فریب اور اسلامی وقار کے فرق کو سمجھ سکیں۔

لبرلزم ایک ایسا نظریہ ہے جو بظاہر انسان کو بااختیار بناتا ہے، مگر درحقیقت اسے خواہشات، نفس اور بے راہ روی کے ہاتھوں غلام بنا دیتا ہے۔ اسلام وہ واحد نظام ہے جو انسان کو آزاد بھی کرتا ہے، اور خدا کے سامنے جھکنے کا وقار بھی دیتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کی فکر ہمیں سکھاتی ہے کہ عقل ضرور استعمال کرو، مگر اسے وحی سے آزاد نہ کرو۔ اسلام کی بنیاد ایسی عقل پر ہے جو سجدے میں جھکنا جانتی ہو۔ یہی وہ توازن ہے جو آج بھی لبرلزم کو حاصل نہیں ہو سکا۔

لہٰذا ہمیں اندھی تقلید کے بجائے فکری بصیرت کے ساتھ لبرلزم کا جائزہ لینا چاہیے، اور اپنی تہذیب و شریعت کو مرکز بنا کر سماج کی تشکیلِ نو کرنی چاہیے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں