✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

عورتوں کی دینی تعلیم پر خطرہ

عنوان: عورتوں کی دینی تعلیم پر خطرہ
تحریر: نور افشاں صدیقی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

خواتین کسی بھی معاشرے کی بنیاد اور تہذیبی وراثت کی محافظ ہوتی ہیں۔ ایک نیک سیرت، باحیا، تعلیم یافتہ اور دیندار عورت ہی ایک صالح نسل کی ضامن بن سکتی ہے۔ اسلام نے جس بلند مقام پر عورت کو فائز کیا، اس کی بنیاد ہی علم و تربیت پر رکھی گئی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں خواتین کی دینی تعلیم نہ صرف نظرانداز کی جا رہی ہے بلکہ اس کا وجود ہی خطرے میں محسوس ہو رہا ہے۔

دینی تعلیم سے محرومی

تہذیبِ جدید کی اندھی تقلید، سوشل میڈیا کا بے لگام استعمال، دینی اقدار سے دوری اور دنیاوی کامیابی کو مقصدِ حیات سمجھ لینے کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ سب عوامل اس الم ناک حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں دینی بنیادوں سے ناآشنا ہوتی جا رہی ہیں۔ قرآن کی تلاوت تو سیکھ لی جاتی ہے، مگر اس کے معانی، احکامِ شریعت، فقہی مسائل، اخلاقیات اور ایمانی شعور سے ناواقفیت عام ہوتی جا رہی ہے۔

دنیا کی دوڑ، دین سے دوری

بدقسمتی سے بعض والدین نے دینی تعلیم کو ثانوی حیثیت دے دی ہے۔ دنیاوی تعلیم کی دوڑ میں وہ اپنی بچیوں کو ایسے راستے پر ڈال دیتے ہیں جہاں دین کا چراغ بجھنے لگتا ہے۔ مزید برآں، بعض مقامات پر دینی اداروں کا فقدان، مناسب رہنمائی کی کمی اور تحفظات بھی اس زوال کا سبب بن رہے ہیں۔ ان حالات میں لڑکیاں نہ صرف دینی شعور سے محروم رہتی ہیں بلکہ عقائد میں کمزوری، ارتداد اور فکری بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔

یہ بحران صرف خواتین کا نہیں، پوری امت کا ہے۔ اگر ماں دین سے ناواقف ہو گی، تو اولاد بھی دین سے دور ہو گی۔ اس لیے لازم ہے کہ خواتین کے لیے دینی تعلیم کے دروازے کھولے جائیں، محفوظ ماحول فراہم کیا جائے، اور اسے ایک قابلِ فخر میدان سمجھا جائے۔ علما، والدین، اساتذہ اور ادارے، سب کو اس مشن کا حصہ بننا ہو گا۔

حالت علم یا تجارت؟

المیہ صرف بے توجہی نہیں بلکہ وہ تجارتی سوچ ہے جو دینی اداروں میں سرایت کر چکی ہے۔ آج مدارس میں بچیوں کی تعداد پر فخر تو کیا جاتا ہے، مگر علمی معیار کی زبوں حالی پر کوئی فکر مند نہیں۔ علمِ نبوی کی حقیقی روشنی کے بجائے صرف اسناد کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ بچیاں بھیڑ بکریوں کی مانند اداروں میں بھر دی جاتی ہیں، مگر ان کی تربیت، کردار سازی اور دینی بصیرت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ فیسیں لی جاتی ہیں، مگر نہ علم دیا جاتا ہے نہ دل سیراب ہوتے ہیں۔

ارتداد اور فکری انتشار

یہی وجہ ہے کہ دینی اداروں سے فارغ ہونے والی بعض بچیاں نہ دین کی نمائندہ بنتی ہیں، نہ دنیا میں کامیاب، بلکہ فکری انتشار اور روحانی خالی پن ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس روش پر اگر فوری نظرِ ثانی نہ کی گئی، تو یہ فکری ارتداد پوری نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا।

تربیت و معیار پر توجہ دیں

آج کے مدارس کو چاہیے کہ وہ اپنے مقصد پر دوبارہ غور کریں۔ کامیابی محض تعداد میں نہیں بلکہ معیار میں ہے۔ بنیادی تعلیم، اخلاقی تربیت، علمِ نبوی کی روشنی، اور کردار سازی ہی کسی مدرسے کی پہچان ہونی چاہیے۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام دینی اداروں کے مہتمم، اساتذہ اور منتظمین کو اخلاص عطا فرمائے، اور انہیں ایسا نظام قائم کرنے کی توفیق دے جو دین کی حقیقی روح کے مطابق ہو۔ تاکہ ہماری بیٹیاں نہ صرف دیندار، بلکہ فکری طور پر بھی مضبوط، باشعور اور باعمل مسلمان بن سکیں۔ آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں