✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

کالجوں میں حجاب کی اجازت

عنوان: کالجوں میں حجاب کی اجازت
تحریر: نبیل احمد عطاری ضیائی

00:00 00:00


حالیہ دنوں میں یہ بحث ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنی ہے کہ آیا تعلیمی اداروں، بالخصوص کالجوں میں، مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگرچہ ایک طبقہ اسے مذہبی آزادی اور تعلیم کے حق سے تعبیر کرتا ہے، وہیں ایک مخصوص نقطہ نظر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ یہ اجازت دراصل ایک گہری چال اور اسلام کے خلاف ایک مبینہ سازش کا حصہ ہو سکتی ہے، جس کا مقصد مسلم لڑکیوں کو کالجوں سے منسلک رکھنا ہے۔

اس نظریے کے مطابق، اگر مسلم لڑکیوں کو حجاب پہن کر کالج آنے کی اجازت دی جاتی ہے، تو اس کا ایک مطلب یہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھیں اور کالج آنا ترک نہ کریں۔ اس سوچ کے حاملین کا ماننا ہے کہ شاید کچھ قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ مسلم لڑکیاں دینی اقدار یا مخصوص سماجی تحفظات کی بنا پر جدید تعلیمی نظام سے دور ہوں۔

اس فکر کے پس پردہ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام، اس کا ماحول، یا اس میں پڑھائے جانے والے بعض مضامین اسلامی تعلیمات اور اقدار سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہیں۔ لہٰذا، اگر حجاب پر پابندی عائد ہوتی تو ممکن تھا کہ بہت سی دین دار مسلم لڑکیاں یا ان کے خاندان ایسی تعلیم کے حصول سے گریز کرتیں جہاں انہیں اپنی مذہبی شناخت پر سمجھوتہ کرنا پڑے۔ اس صورت میں، وہ جدید کالجوں کا رخ نہ کرتیں۔

اس زاویے سے دیکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ حجاب کی اجازت دے کر دراصل انہیں اسی نظام کا حصہ بنائے رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے وہ اپنی تہذیبی اور مذہبی اقدار کے لیے مکمل طور پر موزوں نہیں سمجھتے۔ گویا یہ ایک "رعایت" ہے تاکہ ایک بڑے مقصد کو حاصل کیا جا سکے، یعنی مسلم لڑکیوں کو اس تعلیمی دھارے میں شامل رکھنا جو، اس نظریے کے مطابق، بالواسطہ طور پر ان کی اسلامی شناخت یا فکر کو متاثر کر سکتا ہے۔

اس نظریے کے حامی یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ "سازش" اس لیے ہے تاکہ مسلم معاشرے میں وہ تبدیلیاں لائی جا سکیں جو باہر سے مسلط کی جا رہی ہیں، اور تعلیم اس کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اگر لڑکیاں کالج آتی رہیں گی، تو وہ ان جدید افکار سے متاثر ہوں گی جو شاید ان کی روایتی اسلامی طرزِ زندگی سے متصادم ہوں۔ حجاب کی اجازت محض ایک ظاہری صورت ہے، جب کہ اصل مقصد انہیں ایک ایسے ماحول میں لانا ہے جو ان کی سوچ اور ترجیحات کو تبدیل کر سکے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ واقعی ایک "چال" یا "سازش" ہے، تو اس کا حتمی نشانہ کیا ہے؟ اس نقطہ نظر کے مطابق، شاید یہ مسلم معاشرے کی دینی حمیت کو کمزور کرنا، انہیں اپنی مذہبی روایات سے دور کرنا، یا انہیں ایک ایسی "جدیدیت" کی طرف راغب کرنا ہے جو اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتی۔

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ ایک مخصوص تشریح ہے اور اس سے مختلف آراء بھی موجود ہیں۔ بہت سے مسلمان حجاب کو اپنا دینی فریضہ اور بنیادی حق سمجھتے ہیں اور تعلیم کے حصول کو بھی اتنا ہی اہم جانتے ہیں۔ ان کے نزدیک حجاب کی اجازت تعلیم کے حصول میں معاون ہے اور اسے کسی سازش سے تعبیر کرنا درست نہیں۔

تاہم، مضمون کا مقصد اس مخصوص نظریے کو بیان کرنا تھا جس کے مطابق کالج میں حجاب کی اجازت ایک حکمت عملی ہو سکتی ہے تاکہ مسلم لڑکیاں تعلیم ترک نہ کریں، اور یہ عمل کسی وسیع تر منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے جسے "اسلام کے خلاف سازش" کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ اپنی جگہ پر غور و فکر کا متقاضی ہے اور اس کے اپنے دلائل اور خدشات ہیں۔

اس طرح کے خیالات معاشرے میں مختلف زاویہ ہائے نگاہ کی عکاسی کرتے ہیں اور ان پر مزید علمی اور تحقیقی بحث کی گنجائش موجود ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں