✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

فلسفۂ حج

فلسفہ حج
عنوان: فلسفۂ حج
تحریر: محمد دانش رضا عطاری ، جامعۃ المدینہ فیضان امام احمد رضا، حیدرآباد

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی تخلیق ہی اس لیے فرمائی تاکہ وہ اس کی عبادت و ریاضت کرے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ [الذاریات: 56]

ترجمہ: اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے کہ میری عبادت کریں۔

حقیقی انسان وہی ہے جو اس آیتِ مبارکہ کے پیشِ نظر اپنی زندگی گزارے۔ اس آیت سے جہاں دیگر عبادات کی طرف اشارہ ملتا ہے، وہیں ایک عظیم ترین عبادت کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے، اور وہ ایسی عبادت ہے جس کے اندر مال کے ساتھ ساتھ بدن کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی بنا پر یہ دیگر عبادات سے منفرد ہے، کیونکہ کچھ عبادتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اندر بدنی عمل کا دخل ہوتا ہے، جیسے نماز، اور کچھ عبادتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اندر مالی عمل کا دخل ہوتا ہے، جیسے زکوٰۃ۔ لیکن جب یہ دونوں عناصر جس عبادت کے اندر شامل ہو جائیں، اسے حج کہتے ہیں۔

حج جس طرح ایک مالی، بدنی، قولی، فعلی، اور عملی عبادت اور مقرب عند اللہ ہونے کا بہترین ذریعہ ہے، یوں ہی وہ قیامت کی تصویر کشی بھی کرتا ہے اور ہمیں قیامت کے پرخطر مناظر کی یاد دلاتا ہے اور اس کی تیاری کی طرف راغب کرتا ہے۔ بایں طور کہ حاجی احرام کا لباس پہنتا ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، فقیر ہو یا غنی، کسی کو کسی طرح کا امتیاز حاصل نہیں ہوتا۔ یوں ہی بروزِ قیامت سب ایک ہی انداز میں اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے۔ کسی کے اندر بھی اس کی دولت اور شہرت کا اثر نظر نہیں آئے گا، نہ سرداری کا امتیاز ہوگا اور نہ ہی حکمرانی کا۔

جس طرح حجاج اپنی عبادت کی تکمیل کے لیے صفا و مروہ کی سعی کرتے ہیں، نہ گرمی کی شدت کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ آفتاب کی تپش کا خوف۔ یوں ہی لوگ بروزِ قیامت اپنی اپنی شفاعت کے لیے چکر لگا رہے ہوں گے۔ کوئی حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام کی بارگاہ میں جا رہا ہوگا، تو کوئی ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی بارگاہ میں عرضی لگا رہا ہوگا۔ کوئی حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی بارگاہ سے شفاعت کا امیدوار ہوگا، تو کوئی عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام کی بارگاہ سے سفارش کا طلبگار ہوگا۔ الغرض، ہر ایک شفاعت کی طلب کو لے کر دربدر ہو رہا ہوگا، لیکن ہر ایک کی جانب سے إذهبوا إلى غيره کی صدا گونج رہی ہوگی۔ صرف اور صرف ایک بارگاہ ہوگی جہاں سے أنا لها کی صدا آ رہی ہوگی، جس بارگاہ سے لوگ شفاعت کے امیدوار ہوں گے۔

جس طرح حجاج کرام کا حج اس وقت مکمل ہوتا ہے جب وہ خانہ کعبہ کا طواف کر لیں، یوں ہی لوگوں کی شفاعت اسی وقت ہوگی جب وہ بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں عریضہ پیش کریں، اور حضور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شفاعت فرما دیں۔ جس طرح حجاج آبِ زمزم کے پرلطف ذائقے سے اپنے آپ کو سیراب کر رہے ہوتے ہیں اور اسے نوش کر کے اپنے قلب و جگر کو ٹھنڈک پہنچا رہے ہوتے ہیں، یوں ہی غمزدہ کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو حوضِ کوثر سے سیراب فرما رہے ہوں گے اور ان کے قلوب کو اپنے فیضان سے معطر و منور فرما رہے ہوں گے، اور ہر مومن اس سعادتِ عظمیٰ سے مشرف ہو رہا ہوگا۔

جس طرح حجاج میدانِ عرفہ میں جمِ غفیر کی صورت میں جمع ہو کر اپنے رب کی عبادت و ریاضت اور اس سے استغفار کر رہے ہوتے ہیں، نیز پورے دن ہی خالقِ کائنات کی تسبیح و تحمید میں لگے رہتے ہیں، یہی وہ دن ہوتا ہے کہ تمام حاجی جمع ہوتے ہیں۔ یوں ہی بروزِ قیامت لوگ میدانِ حشر میں جمع ہوں گے اور حساب و کتاب کے لیے اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے۔ یہ وہ میدان ہوگا جس میں غریب کو امیر پر فوقیت ہوگی، نہ سلطان کو وزیر پر، نہ حاکم کو محکوم پر، نہ غنی کو فقیر پر امتیاز حاصل ہوگا، بلکہ وہ انصاف مع الناس کا دن ہوگا، اور ہر ہر مظلوم کو اس کے ظالم سے بدلہ دیا جائے گا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حج کے جملہ ارکان ہی قیامت کی منظر کشی کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی میدانِ عرفہ کی صورت میں میدانِ حشر کی تصویر کشی کر رہا ہوتا ہے، تو کوئی زمزم کی صورت میں حوضِ کوثر کی عکس بندی کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ اللہ ہم سب کو حج کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے اور آخرت کی تیاری احسن انداز میں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں