✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

سفر مدینہ پاک سے مصر کا

سفر مدینہ پاک سے مصر کا
عنوان: سفر مدینہ پاک سے مصر کا
تحریر: محمد سلیم رضا مدنی

نام ابو ایوب انصاری ہے! وہی جن کے گھر کا ہر کونا اور در و دیوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر کی خوشبو سے معطر تھا۔ وہی جن کے گھر کا انتخاب خود ربِ کائنات نے اپنے محبوب کے قیام کے لیے کیا۔ وہی جن کی گلی سے ہو کر نبیوں کے امام مسجدِ نبوی تشریف لے جایا کرتے۔ صحبت کا یہ عالم کہ ہر لمحہ قربِ مصطفیٰ میں بسر ہوا۔ قربت کے انوار نے دل میں شوقِ حدیث کی ایسی لو جلا دی کہ عمر کے آخری حصے میں بھی وہ روشنی مدھم نہ پڑی۔

بات کچھ یوں ہے کہ زمانہ بدل چکا تھا۔ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کی وجہ سے دل ہمہ وقت محبوب کی یاد میں گم رہتا۔ ہر وقت یادِ محبوب کرنا، ان کی گفتگو کو یاد کرنا، ان سے سنی ہوئی احادیث کو دہرانا، ان کی تصدیق کرنا، گویا یادِ محبوب ہی کا ایک ذریعہ تھا۔ سلطنتِ اسلام کا پرچم مصر و شام، ایران و روم تک لہرا چکا تھا۔ بہت سے صحابہ حجاز سے دیگر علاقوں میں منتقل ہو چکے تھے۔ انہی میں ایک نام حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا بھی تھا، جو اب مصر میں مقیم تھے۔

ایک دن حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو یاد آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے ایک حدیث ان کے کانوں نے سنی تھی، اور وہ جانتے تھے کہ اس حدیث کو سننے والوں میں صرف دو افراد باقی رہ گئے ہیں: ایک وہ خود، اور دوسرے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ۔ بس! دل میں ایک آگ سی لگ گئی۔ یہ آگ کسی دنیاوی غرض کی نہ تھی۔ یہ محبتِ حدیث کی تپش تھی۔ یہ تصدیقِ روایت کا خالص جذبہ تھا۔

اسی جذبے کے تحت مدینے سے مصر کا قصد کیا۔ سفر کی ابتدا ہوتی ہے۔ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم ہے، جسم پر ضعف کا سایہ، مگر دل ایسا شعلہ جو صحراؤں، پہاڑوں، دریاؤں اور وادیوں کی پروا کیے بغیر مدینے سے مصر تک کا سفر کروا دے!

کئی ماہ کی مسافت، دشوار گزار راستے اور سفر کی صعوبتیں بھی اس عاشقِ صادق کو نہ روک سکیں۔ آخر کار مصر پہنچے، اور سیدھے گورنر مصر حضرت مسلمہ بن مخلد انصاری رضی اللہ عنہ کے دولت کدے پر جا پہنچے۔ گورنر نے تعظیم سے استقبال کیا اور پوچھا:

مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا أَيُّوبَ؟

(ابو ایوب! کس غرض سے تشریف لانا ہوا؟)

فرمایا:

حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غَيْرِي وَغَيْرُ عُقْبَةَ، فَابْعَثْ مَنْ يَدُلُّنِي عَلَى مَنْزِلِهِ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی، اور اب دنیا میں اس حدیث کو سننے والوں میں سے میرے اور عقبہ بن عامر کے سوا کوئی نہیں بچا۔ پس میرے ساتھ ایک آدمی روانہ فرما دو جو مجھے ان کے گھر تک پہنچا دے۔

والیِ مصر نے فوراً ایک رہنما روانہ کیا جو حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے گھر لے گیا۔ دروازہ کھلا! سامنے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ ان کی زبان سے بھی وہی سوال نکلا:

مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا أَيُّوبَ؟

حضرت ابو ایوب نے فرمایا:

حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غَيْرِي وَغَيْرُكَ فِي سَتْرِ الْمُؤْمِنِ

حضرت عقبہ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا:

نَعَمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: «مَنْ سَتَرَ مُؤْمِنًا فِي الدُّنْيَا عَلَى خَزْيَةٍ سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

صَدَقْتَ (آپ نے سچ فرمایا)

ہاں! یہی وہ حدیث تھی کہ جو کسی مؤمن کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

پھر کیا تھا، بس اتنا سننا مقصود تھا۔

ثُمَّ انْصَرَفَ أَبُو أَيُّوبَ إِلَى رَاحِلَتِهِ فَرَكِبَهَا رَاجِعًا إِلَى الْمَدِينَةِ۔

پھر سواری کی طرف لوٹے، رکاب رکھی، اور مدینہ کی جانب واپس روانہ ہو گئے۔ گویا مصر کے دور دراز سفر کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ اپنے کان سے سنی ہوئی بات دوسرے کی زبان سے سن لیں۔

امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ اس واقعے کو لکھنے کے بعد اپنا ایک عظیم تأثر لکھتے ہیں:

فَهَذَا أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ عَلَى تَقَدُّمِ صُحْبَتِهِ وَكَثْرَةِ سَمَاعِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم رَحَلَ إِلَى صَحَابِيٍّ مِنْ أَقْرَانِهِ فِي حَدِيثٍ وَاحِدٍ

یعنی یہ ابو ایوب انصاری ہیں جو صحابہ میں سبقت رکھنے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ احادیث سننے والے تھے، اس کے باوجود صرف ایک حدیث کی تصدیق کے لیے اپنے ہم عصر صحابی کے پاس دور دراز سفر کر کے پہنچے۔ [ملخصاً من معرفة علوم الحديث للحاكم، ص: 7، طبع: دار الكتب العلمية - بيروت]

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں