عنوان: | کیا کہیں، کس سے کہیں! |
---|---|
تحریر: | نثار احمد |
نظر ثانی: | مفتی شہباز مصباحی، ارول |
تبلیغ کے شعبوں میں جو آسان شعبہ ہے، وہ تقریر کا ہے، پھر اس سے مشکل تدریس، اور ان دونوں سے زیادہ مشکل تصنیف کا ہے۔ ان تمام کا سرچشمہ ایک عظیم مرحلہ، یعنی درسِ نظامی ہے۔
یہ ایک ایسا سفر ہے، جس میں ایک طالب علم کو مشکلات، چیلنجز (Challenges)، اور آزمائشوں سے نبرد آزما رہنا پڑتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے:
’’زمانۂ طالبِ علمی، علت، قلّت، اور ذلّت کا زمانہ ہے‘‘۔
لیکن یہی محرومیاں، یہی دشواریاں آگے چل کر طالب علم کو نکھارتی ہیں، سنوارتی ہیں، اور اسے ایک باوقار مقام عطا کرتی ہیں۔ وہی طالب علم مستقبل میں کبھی مصنف، کبھی مدرس، اور کبھی مقرر کی حیثیت سے قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ ان مناصب کی عظمت کے ساتھ جو آزمائشیں وابستہ ہوتی ہیں، وہ ناگزیر ہوتی ہیں۔
انہی خیالات نے دل ودماغ میں ہلچل مچائی، تو قلم کو حرکت دینے کا ارادہ کیا اور اس فکری تلاطم کو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر قارئین کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔
زمانۂ طالبِ علمی وہ نازک وقت ہوتا ہے، جب ہر ایک کے حقوق کی پاسداری کرنا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی شخص خطرناک بیابان میں اپنے لشکر کے ساتھ ایک تاریک رات میں بھٹک رہا ہو اور راستے کی تلاش میں ہو۔ اگر کسی طرح اسے راستہ مل بھی جائے، تو وہ راستہ ایک کھائی سے گزر کر جاتا ہو، جس کا پل جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا ہو۔ پھر لشکر کے افراد میں بھی اتحاد نہ ہو۔ کوئی کہے:
’’رات یہیں گزارتے ہیں، صبح منزل کی طرف روانہ ہوں گے‘‘،
تو کوئی کہے:
’’نہیں! ابھی چلنا بہتر ہے، کیونکہ جنگل خطرناک ہے، اور درندوں کا اندیشہ ہے‘‘۔
اب وہ کرے تو کرے کیا؟
درسِ نظامی کے طالب علم کو بھی انہی پیچیدہ حالات سے گزرنا ہوتا ہے۔ ایک طرف اساتذہ کے حقوق کا خیال رکھنا، تو دوسری طرف درسی ساتھیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے جذبات کا پاس بھی رکھنا ہوتا ہے۔ اکثر یہ ساتھی فکری طور پر منتشر اور مزاج میں مختلف ہوتے ہیں، جن کے درمیان اتحاد پیدا کرنا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
میرے محترم استاد مولانا سید نور الدین مدنی صاحب بجا فرماتے ہیں:
’’جس کی ذہانت زیادہ ہوتی ہے، اس کی آزمائش بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے، اسی طرح جس کا مرتبہ جتنا بلند ہوتا ہے، اس کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بھاری ہوتی ہیں‘‘۔
اب ان تضادات کو سلجھائے تو کون؟ تطبیق دے تو کون؟
یا اللہ! اب تو بس تجھ ہی سے فریاد ہے
یہ بندۂ ناتواں تیرے ہی در کا محتاج ہے
کرم فرما! رہنمائی فرما! کہ یہی ایک سہارا ہے، جو ہر طالبِ علم کو اپنی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔