عنوان: | ہماری قوم کا پیسہ کہاں جارہا ہے |
---|---|
تحریر: | محمد سفیان حنفی مصباحی |
پیش کش: | الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ |
مال و دولت اللہ رب العزت کی بہت عظیم نعمت ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ( البقرة ، آیت : 195 )
ترجمہ: اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
لَا تُسْرِفُوْا اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (الانعام ، آیت : 141)
ترجمہ: بے جا خرچ مت کرو، بے شک بے جا خرچ کرنے والے اللہ کو پسند نہیں۔
یعنی مال کا مصرف ایسا ہونا چاہیے جو اللہ کی رضا، مخلوق کی بھلائی، اور دینی و دنیوی فلاح کا ذریعہ بنے۔ لیکن افسوس کہ ہماری قوم کی اکثریت دولت کو غلط جگہوں پر خرچ کر کے نہ صرف دنیاوی نقصان اٹھا رہی ہے بلکہ دینی خسارے کا بھی شکار ہو رہی ہے۔
زبوں حالی کا ایک سبب غلط جگہ مال خرچ کرنا
آج ہم جن حالات کا رونا روتے ہیں، ان کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی دولت کو صحیح مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ ہم گلی محلوں میں گھومیں تو بیماریاں عام ہیں، لیکن ایک اچھا ہسپتال ہماری دسترس میں نہیں۔ ہماری بچیاں دین و ایمان بچانے کی خاطر علم حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن قریب میں کوئی تعلیمی ادارہ موجود نہیں جہاں وہ تحفظِ دین و عزت کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔
یہ سب کس وجہ سے ہے؟ اس لیے کہ قوم کا سرمایہ ان کاموں میں صرف ہو رہا ہے جن سے نہ دنیا بنتی ہے نہ آخرت۔ ہماری دولت کہاں جا رہی ہے؟
رسم ورواج
اسلام نے نکاح کو آسان اور فحاشی سے پاک عمل بنایا۔ لیکن آج نکاح کی سادگی ختم ہو گئی ہے، اور اس کی جگہ جھوٹی شان و شوکت نے لے لی ہے۔ شادیوں میں لاکھوں کا ضیاع صرف دکھاوا، لباس، ہال، ڈی جے، اور کھانوں پر ہوتا ہے۔ اسی پر بس نہیں، اب سالگرہ، ویلنٹائن، نیو ایئر، اور انیورسری جیسے رسومات بھی لاکھوں کے خرچ کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ یہ رسمیں صرف پیسے کا ضیاع ہی نہیں بلکہ گناہوں کا دروازہ بھی کھولتی ہیں۔ ایسے ماحول میں بے حیائی، اختلاط، موسیقی، اور غیروں کی نقالی عام ہو جاتی ہے۔
مروجہ پروگرام
علمی، اصلاحی یا دعوتی اجتماعات کی اصل غرض لوگوں کی تربیت اور اللہ کے دین کی دعوت ہے، لیکن افسوس کہ آج یہ شو بازی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ نامور نعت خوان، مقرر، اور مشہور شخصیات کو بلا کر لاکھوں کے اشتہارات، بینر، پنڈال، اور نذرانے دیے جاتے ہیں۔ ان پروگراموں میں شریعت کی روح کم اور شہرت و ناموری کا شوق زیادہ نظر آتا ہے۔
پیشہ ور پیر
عوام الناس کا عقیدت میں اندھا ہونا ایک المیہ بن چکا ہے۔ ایسے لوگوں کو جو دین کا علم نہیں رکھتے، صرف موروثی پیر کہلانے پر لوگ چومتے اور نذر و نیاز دیتے ہیں۔ یہ پیسے بظاہر برکت کی نیت سے دیے جاتے ہیں، مگر نہ کوئی تعلیم، نہ اصلاح، نہ خیر۔ بلکہ بعض پیر تو ایسے عامل اور جادوگر بن چکے ہیں جو جہالت اور گمراہی پھیلا رہے ہیں۔
اعراس میں بے دریغ خرچ
بزرگانِ دین کی قبروں پر حاضری باعثِ خیر ہے، لیکن وہ بھی حدودِ شریعت میں۔ آج مزارات پر عقیدت کے نام پر ناچ گانا، قوالی، مخلوط میل جول، دھمال اور خریداری کے میلے لگتے ہیں۔ مجاوروں کو نذرانے، چادروں وغیرہ پہ لاکھوں روپے صرف کیے جاتے ہیں جن کا نہ کوئی دینی فائدہ ہے نہ سماجی۔ جبکہ قرآن بار بار عقلمندی سے خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيٰطِينِ (الاسراء آیت:27)
ترجمہ: بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔
ہماری اصل ضرورت کیا ہے؟ ہمارے نوجوان بے روزگار ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اسکول، کالج، یونیورسٹیز، اور ٹیکنیکل ادارے بنائیں تاکہ تعلیم اور روزگار دونوں ممکن ہو۔ ہماری مائیں بہنیں علاج کے لیے در در پھرتی ہیں۔ ہمیں ہسپتال، کلینک، اور خواتین کے لیے الگ میڈیکل سہولیات قائم کرنی چاہیے۔ یتیم، غریب، اور بیوائیں مدد کو ترستی ہیں۔ ہمیں ایسے فلاحی مراکز کی ضرورت ہے جو ان کی باعزت کفالت کریں۔