عنوان: | امام حسین کی شہادت اور ڈھول باجے |
---|---|
تحریر: | محمد فرقان رضا حنفی |
پیش کش: | جامعہ عربیہ انوارالقرآن، بلرام پور |
کربلا کا میدان کوئی تماشہ گاہ نہ تھا، نہ کوئی میلہ یا مشغلہ تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حق و باطل کی آخری لکیر کھینچی گئی۔ جہاں ایک طرف سجدے میں جھکی پیشانی تھی، تو دوسری طرف ظلم کی تلوار۔ جہاں ایک طرف قرآن کے وارث تھے، تو دوسری طرف شراب کے رسیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں امامِ عالی مقام، نواسۂ رسول، سیدالشہداء، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے خاندان کے ساتھ دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے قربانی دی۔
مگر آج کیا ہو رہا ہے؟ امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر گلیوں میں ڈھول بج رہے ہیں، نشہ آور چیزیں پی کر لوگ سڑکوں پر ناچتے ہیں، اور خود کو” حسینی“ کہتے ہیں۔ کیا یہی ہے حسینیت؟
غور کیجیے! اگر آپ کے گھر میں میت ہو جائے تو کیا آپ ڈھول بجاتے ہیں؟ اگر آپ پر کوئی مصیبت آئے تو کیا آپ ناچتے گاتے ہیں؟ نہیں! تو پھر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم قربانی کو اس طرح بدنام کیوں کر رہے ہیں؟
حسینی وہ ہے جو صبر کرتا ہے، جیسے امام نے کیا۔ جو نماز قائم کرتا ہے،جیسے امام نے میدانِ کربلا میں کی۔ جو شریعت پر ڈٹ جاتا ہے، جیسے امام نے یزید کے سامنے کیا۔ جو گناہوں سے توبہ کرتا ہے، اور دین کی دعوت دیتا ہے۔
ڈھول کون بجاتے ہیں؟ ڈھول وہی بجاتے ہیں، جنھیں دین کی معرفت نہیں ہوتی۔ جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت سے واقف نہیں ہوتے۔ جنھیں یزید کے کردار سے لگاؤ ہوتا ہے اور حسین کے پیغام سے نہیں۔
کیا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں یہی سکھایا؟ ہرگز نہیں! امام نے تو سجدے میں جان دے دی، باطل کے سامنے سر نہ جھکایا۔
اے نوجوانو! اگر تم سچے حسینی ہو تو ڈھول چھوڑو، قرآن اٹھاؤ ماتم چھوڑو، نماز قائم کرو، جلوسوں کے ہنگامے چھوڑو، تبلیغِ حق اختیار کرو، ظاہری شور و ریاکاری چھوڑو، باطنی اصلاح کی راہ اپناؤ.
آخری پیغام: آج وقت ہے کہ ہم حسینیت کے نام پر ہونے والی بدعتوں اور رسمی و غیر شرعی حرکات کا محاسبہ کریں، ورنہ کل قیامت میں امام حسین رضى الله عنہ خود سوال کریں گے: تم نے میرے غم کو ڈھول تاشے میں کیوں بدلا؟
اللہ پاک ہمیں سچا حسینی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور یزیدیت کے تمام رنگ و اثرات سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔