عنوان: | نحوی تحقیق کا ایک علمی سفر از خلاصۃ النحو تا حاشیہ شرح جامی |
---|---|
تحریر: | مولانا عکاس علی نعیمی، استاذ جامعۃ المدینہ موڈاسا |
تقریباً ڈیڑھ دو ماہ قبل کی بات ہے، ایک دن عشاء کے بعد درجہ ثانیہ کے طالب علم حافظ عبید رضا ابن شمس میرے پاس آئے اور انہوں نے نحو کا ایک مسئلہ پوچھا کہ حضرت! جزاء اگر مضارع مجزوم بلم ہو، تو اس پر فاء کا دخول جائز ہے یا نہیں؟
میں نے کہا کہ جائز نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا: کیوں؟ میں نے کہا کہ وہ معناً ماضی ہے اور قد کے بغیر ماضی پر فاء کا دخول جائز نہیں ہے۔
تو انہوں نے مجھے ہدایۃ النحو کے دخولِ فاء کی وجوبی صورتوں پر چڑھایا ہوا حاشیہ دکھایا، جس میں صاف لکھا تھا کہ مضارع منفی بما، لن، اور لم پر فاء لانا واجب ہے۔ وہ حاشیہ یہ ہے:
الصورة الثانية أن يكون الجزاء مضارعاً منفيا بغير "لا" بأن يكون منفيا بـ"ما" أو بـ "لن" أو بـ "لم"
یعنی دوسری صورت (جہاں فاء لانا واجب ہے) یہ ہے کہ جزاء مضارع منفی بغیر لا ہو، بایں طور کہ منفی بما ہو، یا بلن ہو، یا بلم ہو۔ [عنایۃ النحو، ص: ۱۹۹]
تب میں نے ان سے خلاصۃ النحو منگوا کر دیکھی، تو اس میں صراحت تھی کہ جزاء لم کے ساتھ ہو، تو اس وقت فاء لانا جائز نہیں ہے۔ اس کی اصل عبارت یہ ہے:
دو صورتوں میں جزاء پر فاء لانا جائز نہیں:
۱۔ جزاء ماضی بغیر قد کے ہو: إِنْ صُمْتَ نَجَحْتَ
۲۔ جزاء کے شروع میں لم ہو: مَنْ يَكْذِبُ لَمْ يَنْجَحُ
[خلاصۃ النحو، ص: ۱۵۳]
تو میں حیرت میں پڑ گیا کہ ایک ہی مصنف نے دو جگہ دو طرح کی بات لکھ رکھی ہے۔ اور ابھی یہ فیصلہ بھی باقی تھا کہ خلاصۃ النحو اور عنایۃ النحو میں سے کس کی بات صحیح ہے؟
پھر میں نے ان سے شرح جامی لانے کو کہا۔ اسے جب کھول کر دیکھا، تو میری حیرت میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہو گیا، کیونکہ اس میں بھی دو جگہ دو طرح کی بات لکھی ہوئی تھی۔ یعنی ماضی بغیر قد کی تفصیلات میں بھی مضارع مجزوم بلم کو شمار کیا تھا، جس کی اصل عبارت یہ ہے:
إذا كان الجزاء ماضيا بغير قد لفظا تفصيل للماضي، نحو: إن خرجت خرجت، أو معنى نحو: إن خرجت لم أخرج --- لم يجز الفاء في الجزاء [شرح الجامي، ص: ۵۰۱، کتب خانہ مدرسہ فقاہت]
یعنی جزاء ماضی چاہے لفظاً ہو جیسے إن خرجت خرجت یا معناً ہو جیسے إن خرجت لم أخرج، اس پر فاء کا دخول جائز نہیں ہے۔
اور مضارع منفی بغیر لا کی تفصیلات میں بھی مضارع مجزوم بلم کو شمار کیا تھا۔ اصل عبارت یہ ہے:
وإما جملة اسمية أو أمر أو نهي أو دعاء أو استفهام أو مضارع منفي بما أو لم أو لن إلى غير ذلك، كالتمني والعرض. وفي جميع هذه المواضع لا تأثير لحرف الشرط في الجزاء فاحتاج إلى الفاء [شرح جامی، ص: ۵۰۳]
یعنی جملہ اسمیہ، جملہ انشائیہ، اور فعل مضارع منفی بما، یا بلم، یا بلن وغیرہ، مثلاً تمنی و عرض؛ ان تمام صورتوں میں چونکہ حرفِ شرط کی جزاء میں کوئی تاثیر نہیں ہوتی، اس لیے فاء کی ضرورت ہے۔
اسی حیرانگی کے عالم میں میں نے شرح جامی کے حاشیہ کی طرف نظر کی، تو الحمدللہ، وہاں اس حیران کن مسئلہ کا حل موجود تھا۔ اس میں لکھا تھا:
الواجب إسقاط قوله: (أو لم) فإنه صرح فيما سبق أنه ماض معنى مندرج في قوله: (إذا كان ماضيا بغير قد) وفي بعض النسخ لم يوجد [شرح جامی، حاشیہ، ص: ۵۰۳]
جس کا صریح مطلب یہ تھا کہ مضارع منفی بغیر لا کی تفصیلات میں لم کو شامل کرنا صحیح نہیں ہے، اور بعض نسخوں میں یہ موجود بھی نہیں ہے۔
اس حاشیہ نے مجھے حیرت کے بھنور سے کلیتاً نکال لیا۔ پھر میں نے اطمینان کی سانس لی۔ الحمدللہ رب العالمین، والصلوٰة والتسلیم علیٰ سید المرسلین، وعلىٰ آلہ وأصحابہ أجمعین
ابھی ایک مرحلہ اور باقی تھا، وہ یہ کہ عنایۃ النحو میں ماضی بغیر قد کے تحت والے حاشیہ میں کیا ہے؟ اس حاشیہ کو دیکھا، تو خلاصۃ النحو والی بات ہی لکھی ہوئی تھی کہ مضارع مجزوم بلم پر فاء کا دخول صحیح نہیں ہے۔ اس حاشیہ کی اصل عبارت یہ ہے:
قوله: ماضياً سواء كان لفظاً نحو: «إن أكرمتني أكرمتك» أو معنى نحو: «إن قمت لم أقم» [عنایۃ النحو، ص: ۱۹۸]
یعنی ماضی لفظاً ہو جیسے إن أكرمتني أكرمتك یا معناً ہو جیسے إن قمت لم أقم۔
یہ حاشیہ دیکھنے کے بعد خیال آیا کہ کاش یہ حاشیہ پہلے ہی دیکھ لیا ہوتا، تو اسی وقت معلوم ہو جاتا کہ مضارع منفی بغیر لا کے تحت جو عنایۃ النحو والا حاشیہ ہے، وہ غلط ہے۔
خیر! دیر آید، درست آید۔ شرح جامی منگانے سے یہ بات تو معلوم ہو گئی کہ اس میں بھی کتابت کی غلطی موجود ہے، اور اسی کی اتباع میں یہاں یہ سہو واقع ہوا ہے۔
اب جب کہ مسئلہ مجھ پر مکمل منقح ہو گیا تھا، تو میں نے عبید سے کہا: دیکھیے! خلاصۃ النحو کی بات اور عنایۃ النحو کی صفحہ ۱۹۸ والی بات ہی صحیح ہے، اور اس کے برخلاف، عنایۃ النحو کی صفحہ ۱۹۹ والی بات صحیح نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ محشی علامہ سے بے توجہی میں شرح جامی کی اتباع میں یہ بات نقل ہو گئی ہو۔
پھر وہ خوش و خرم میرے پاس سے چلے گئے۔
اس کے اس طرح سوال کرنے سے مجھے بھی بے پناہ خوشی ہوئی، اور سچ پوچھیے، تو اس وقت مجھے حضرت مفتی عبید الرحمن مصباحی رشیدی پورنوی رحمۃ اللہ علیہ کے دورِ طالب علمی کا علمِ نحو سے متعلق ایک واقعہ یاد آ گیا تھا۔
ماضی قریب کی نامور ہستیوں میں ایک بڑا نام حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی پورنوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔ تعلیمی سفر میں مظہرِ اسلام آنے سے پہلے تک نحو و صرف سے آپ کو دلچسپی تھی، لیکن مظہرِ اسلام میں داخلہ لینے کے بعد آپ کی دلچسپی معقولات کے ساتھ قائم ہو گئی تھی۔
وہ واقعہ یہ تھا کہ نحو کا کوئی مسئلہ شرح جامی میں کچھ اور تھا، اور البشیر الکامل یا بشیر الناجیہ میں صدر العلماء، علامہ غلام جیلانی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ اور تحریر فرما رکھا تھا۔ اس مسئلہ کو لے کر حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد (غالباً حضرت علامہ عبد الرؤف بلیاوی رحمۃ اللہ علیہ) کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، تو علامہ عبد الرؤف بلیاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: آپ صحیح فرما رہے ہیں، دونوں میں تضاد تو موجود ہے، اور ادھر شارح جامی ہے، تو ادھر بھی صدر العلماء امام النحو ہیں۔ میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس کا قول درستگی کے زیادہ قریب ہے۔ آپ کی خوش نصیبی یہ ہے کہ امام النحو صاحب ابھی باحیات ہیں، آپ ان سے خط و کتابت کر لیجیے۔ تو حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کے حل کے لیے حضور امام النحو کی بارگاہ میں خط لکھا، جس کے جواب میں حضور امام النحو رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا: بالکل، آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں نے شارح جامی کے برخلاف موقف اختیار کیا ہے، کیونکہ یہی موقف میرے استاد (غالباً حضرت مولانا گل محمد کابلی رحمۃ اللہ علیہ) کا تھا، انہی کی اتباع میں میں نے یہ موقف اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔
اور خط کے اخیر میں آپ نے اشرفیہ کی بڑی تعریف کی کہ: مجھے خوشی ہوئی کہ اشرفیہ میں ایسے طلبہ کرام موجود ہیں، جو اتنی باریک بینی اور گہرائی و گیرائی کے ساتھ کتبِ دینی کا ذوق رکھتے ہیں۔
حسنِ اتفاق کہیے کہ دونوں واقعات میں کئی طرح سے مشابہت و یکسانیت پائی جاتی ہے؛ من جملہ یہ کہ وہاں بھی عبید، یہاں بھی عبید؛ وہاں بھی نحو کا مسئلہ، یہاں بھی نحو کا مسئلہ؛ وہاں بھی تضاد، یہاں بھی تضاد۔ ماشاء اللہ عز و جل۔
اس سال حافظ عبید کے کئی سوالوں سے میں بہت خوش ہوا۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا۔ سوچا کہ ان خوشیوں کو الفاظ کا جامہ پہنا دیا جائے، سنا ہے خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔
مولا کریم! حافظ عبید سمیت ہم سب کو ہمارے اکابر، خصوصاً حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی پورنوی رحمۃ اللہ علیہ کے فیضان سے مالامال فرمائے، نظرِ بد سے محفوظ رکھے، دونوں جہان کا سفر آسان بنائے، ہمارے اکابر کی روش پر ہمیں قائم و دائم رکھے، تبلیغِ دین و سنت میں دعوتِ اسلامی کی دھوم مچائے، اور جن کے مساعی جمیلہ کی بدولت اس علمی انحطاط کے زمانے میں ہمیں باذوق طلبہ اور انتہائی دینی و علمی ماحول فراہم ہوا، یعنی کروڑوں سنیوں کے پیشوا، بانی دعوتِ اسلامی، امیرِ اہلِ سنت ابو بلال، حضرت علامہ مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ، ان کا سایہ ہمارے سروں پر دراز فرمائے۔ آمین ثم آمین، بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلىٰ آلہ وبارک وسلم أبداً أبداً۔
۱۳ شعبان المعظم ۱۴۴۶ھ بمطابق ۱۲ فروری ۲۰۲۵ء