عنوان: | قرآن سے ہمارا رشتہ صرف تلاوت یا عملی زندگی |
---|---|
تحریر: | مفتیہ ہانیہ فاطمہ قادریہ |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کا وہ آخری کلام ہے جو نبی آخر الزماں ﷺ پر نازل ہوا، جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہدایت، رحمت، شفاء اور نور ہے۔ یہ کتاب محض تلاوت کے لیے نہیں بلکہ عمل کے لیے نازل ہوئی ہے، تاکہ انسان اپنی زندگی کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر گزار سکے۔
قرآن سے ہمارا موجودہ تعلق
آج ہم مسلمان قرآنِ پاک سے رشتہ تو رکھتے ہیں، لیکن افسوس! وہ رشتہ زیادہ تر صرف زبان کی حد تک رہ گیا ہے۔ گھروں میں تلاوت ضرور ہوتی ہے، قرآن کو جزدان میں لپیٹ کر اونچی جگہ پر رکھا جاتا ہے، سال میں ایک مرتبہ ختم القرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن قرآن کی تعلیمات، احکامات اور عملی رہنمائی ہماری زندگیوں سے غائب ہے۔
قرآن کا اصل مقصد
اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے:
ھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ: 2)
ترجمہ کنزالایمان: اس میں ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔
مزید فرماتا ہے:
کِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (ص: 29)
ترجمہ کنزالایمان: (یہ قرآن) ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقلمند نصیحت حاصل کریں۔
یہ آیات صاف بتاتی ہیں کہ قرآن کی صرف تلاوت مقصود نہیں بلکہ تدبر، فہم، اور پھر عمل مطلوب ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ یہ تھا کہ آپ خود قرآن پر عمل کرتے، صحابہ کرام قرآن کو سیکھتے اور فوراً اپنی زندگی میں نافذ کرتے۔
صحابہ کا تعلق قرآن سے
عَنْ عَائِشَةَ: كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ (مسلم: 746)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔
صحابہ قرآن کی ہر آیت کو اپنا رہنما بناتے، ہر حکم کو مانتے، ہر منع کردہ چیز سے رک جاتے۔ وہ قرآن کو زندگی کا دستور سمجھتے تھے، نہ کہ محض ثواب کی کتاب۔
آج کا المیہ بدقسمتی سے آج ہمارے ہاں قرآن صرف ثواب کے لیے پڑھا جاتا ہے: بچوں کو قرآن پڑھانا فرض سمجھتے ہیں، لیکن اسے سمجھنا یا سکھانا نہیں۔ قرآن کی آیات کو تعویذ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن ان پر عمل نہیں کرتے۔ قرآن پڑھنے پر فخر کرتے ہیں، مگر اس کے مطابق زندگی گزارنے میں غفلت کرتے ہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ قیامت کے دن رسول ﷺ کی شکایت کن لوگوں کے خلاف ہوگی؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرً (الفرقان: 30)
ترجمہ کنزالایمان: اور رسول نے عرض کی: اے میرے رب!میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل بنا لیاہے۔
قرآن سے عملی تعلق کیسے بنائیں
فہمِ قرآن کو لازم بنائیں صرف تلاوت کافی نہیں، قرآن کا ترجمہ، تفسیر، اور اس کا پیغام سمجھنا ضروری ہے۔ روزمرہ زندگی میں قرآن کو نافذ کریں! قرآن کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور عبادی احکام کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ فیملی اور سوسائٹی میں قرآن کو عام کریں بچوں، طالبات، اور گھر کے افراد کے لیے قرآن کی کلاسز رکھیں، خواتین میں قرآن فہمی کی محافل منعقد کریں۔
قرآن سے جذباتی نہیں، عقلی و عملی تعلق قائم کریں! قرآن کے ساتھ صرف رونے، بوسہ دینے اور تعویذ بنانے تک محدود نہ رہیں، بلکہ اسے زندگی کی راہنمائی مانیں۔
قرآن وہ آئینہ ہے جو ہمیں ہمارے عیوب دکھاتا ہے، وہ روشنی ہے جو اندھیروں کو مٹاتی ہے، اور وہ دستور ہے جو فرد، خاندان، اور امت کو فلاح کی راہ پر لے جاتا ہے۔ اگر ہم واقعی قرآن کے عاشق ہیں تو ہمیں اس کے احکام کو زندگی میں نافذ کرنا ہوگا۔ ہمیں خود بھی قرآن کو سمجھنا ہوگا، دوسروں کو بھی سمجھانا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر اس پر عمل کرنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن سے سچا تعلق نصیب فرمائے، زبانی نہیں، عملی؛ وقتی نہیں، دائمی؛ رسمی نہیں، روحانی۔ آمين يارب العالمين