عنوان: | آزمائش فوقیت اور انتخاب کا دروازہ |
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
انسان کی زندگی میں جو بھی عظمت، بلندی، اور مقام آتا ہے، وہ صرف دعاؤں، امیدوں اور خوابوں سے نہیں آتا، بلکہ آزمائشوں کی بھٹی سے نکل کر آتا ہے۔ دنیا کا دستور یہی ہے کہ جو عظمت چاہتا ہے، اسے مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی آزمائشیں دراصل اس کے انتخاب کا دروازہ بنتی ہیں۔
یہ حقیقت ہر اُس شخص پر بھی لاگو ہوتی ہے جو قلم سے روشنی بانٹتا ہے۔ لکھاری ہو یا عالم، معلم ہو یا محقق۔ سب کو اس راہ میں آزمائشیں پیش آتی ہیں۔ کبھی اس کی تحریریں چوری ہوتی ہیں، کبھی اس پر ناحق الزام لگایا جاتا ہے، کبھی اس کے الفاظ دوسروں کے نام سے پیش کیے جاتے ہیں، کبھی اسے بدگمانیوں اور طنز و تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ سب دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بندے کی استقامت اور اخلاص کو پرکھنے کا ذریعہ ہے۔ یہ آزمائشیں اس کے لیے اس کی محنت اور لگن کی جانچ ہوتی ہیں۔ یہی امتحان اس کی منزل کا زینہ ہے، کیوں کہ بے غیر آزمائش کے کوئی بھی شخص اپنی اصل قدر اور مرتبے تک نہیں پہنچ پاتا۔
لہٰذا! اے قلم کاروں! اے اہل علم! جب کبھی آزمائش ائے چاہے وہ تحریر کی چوری ہو، تحریر کی ناقدری ہو، یا تنقید کا طوفان ہو۔ تو رک نہ جانا۔ قلم کو مت توڑنا، زبان کو مت بند کرنا۔ اپنے لکھنے کو جاری رکھنا، کیوں کہ یہی آزمائش تمہارے لیے فوقیت کا دروازہ ہے۔
دنیا والوں کی نظریں شاید تمہاری محنت کا حق نہ دیں، لیکن اللہ تعالیٰ تمہارے خلوص کو جانتا ہے۔ اگر تمہاری نیت سچی ہے تو آزمائش کے بعد وہی رب تمہیں انتخاب کا تاج بھی عطا کرے گا۔ یہی قانون قدرت ہے: عظمت آزمائش کے راستے سے گزر کر ہی ملتی ہے! یہی آزمائش تمہیں آزما کر منتخب کرتی ہے اور تمہارے لفظوں میں روشنی ڈالتی ہے۔ پس ڈٹے رہو، لکھتے رہو، اور حق کی راہ پر چلتے رہو۔