✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

شہوت و نفس پرستی کے آزار

عنوان: شہوت و نفس پرستی کے آزار
تحریر: بنتِ عبد الرحیم صدیقی
پیش کش: مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد

قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور اسلاف کے ذریعے ہمیں بار بار آگاہ کیا گیا ہے کہ دنیاوی زندگی عیش و عشرت اور نمائش کے لیے نہیں ملی ہے۔ مگر افسوس لوگ اس قدر اس دنیائے فانی میں گم ہو جاتے ہیں کہ اپنے رب کے احکام کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ بلکہ حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ بندہ اپنے اصل مقصد کو بھی بھول جاتا ہے۔

حالانکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو شئی اپنے حقیقی مقصد سے ہٹ کر کام کرے اس کا شمار بیکار اشیاء میں ہوتا ہے۔ مثلاً ایک پنکھا جو کہ ہوا فراہم کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، اب اگر اس کے ذریعے ہوا میسر نہ ہو تو اگر چہ وہ بیش قیمت و خوبصورت ہی کیوں نہ ہو مگر اصل مقصد سے ہٹنے کی وجہ سے اسے بیکار ہی مانا جائے گا۔

یوں ہی ایک فون جس کا اصل مقصدِ وجود یہ ہے ایک شخص کو دوسرے شخص سے بات کرائے، ہمیشہ اس فون میں نئی نئی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ دھیرے دھیرے وہ مزید ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔ مگر! پھر بھی اپنے اصل مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ رہا ہے یعنی بات کرانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

ٹھیک اسی طرح انسان بھی کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو جائے۔ جب تک اصل مقصدِ حیات سے جڑا رہے گا اس وقت تک اس کی زندگی کامیاب ہے اور جوں ہی اس نے اصل مقصدِ حیات سے کنارہ کشی اختیار کی پھر اس کی زندگی اسی پنکھے کی طرح ہے جو بیش قیمت و خوبصورت تو ہے مگر ہوا نہیں دیتا۔

اب سوال یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا اصل مقصد ہے کیا؟ تو آئیے قرآن شریف میں دیکھتے ہیں۔

اللہ رب العزت نے اپنے کلام مجید میں ارشاد فرمایا:

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذّٰاريات:56)

ترجمہ کنزالایمان: اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی لئے بنائے کہ میری بندگی کریں۔

اس آیت کریمہ سے واضح ہو گیا کہ انسان کے وجود کا اصل مقصد عبادت الٰہی ہے۔ مگر موجودہ دور کا مشاہدہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ یہاں تو اکثر لوگ اصل مقصد کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا بندہ کچھ بھی کرے مگر جب جہاں رب تعالیٰ کا حکم ہو تو فوراً سر خم کر دے۔ رب کائنات کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کے بارے میں تصور بھی نہ کرے۔ مگر کیا ایسا ہو رہا ہے....؟ الا ماشاء اللہ

پتہ ہے ایسا کیوں...؟ کیوں کہ بندے نے اپنے اوپر نفسانی خواہشات کو غالب کر دیا ہے۔ وہ اپنے نفس کا غلام ہو گیا ہے۔ اور یہ خواہشات اگر قابو میں رہیں تو انسان کی زندگی خوشگوار رہے گی لیکن جوں ہی یہ بے لگام ہو جائیں تو انسان کو گمراہی اور تباہی کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ نیز نفس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ شیطان سے بھی بڑا دشمن ہے۔ تو کیا دشمن کبھی خیرخواہ ہو سکتا ہے..؟ ہرگز نہیں! بلکہ وہ تو ہمیشہ اسی کوشش میں رہتا ہے کہ تمہیں سب کی نظر میں گرا دے۔

اب آئیے جانتے ہیں کہ نفسانی خواہشات ہے کیا..؟ نفسانی خواہشات سے مراد وہ جذبات ہیں جو انسان کے نفس (یعنی باطنی وجود) سے پیدا ہوتی ہیں اور اکثر انسان کو دنیاوی لذتوں، جسمانی خواہشات یا وقتی فائدے کی طرف مائل کرتی ہیں۔ یہ خواہشات انسان کی فطرت کا حصہ ہیں، مگر اگر ان پر قابو نہ پایا جائے تو یہ انسان کو برائی، گناہ اور گمراہی کی طرف لے جا سکتی ہیں۔

اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جائز و ناجائز کی پرواہ کیے بغیر نفس کی ہر خواہش پوری کرنے میں لگ جانا اتباعِ خواہشات کہلاتا ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بندہ اتباعِ خواہشات میں پڑا وہ تباہ و برباد ہو گیا۔

جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:

وعن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ثلاث منجيات وثلاث مهلكات فاما المنجيات: فتقوى الله في السر والعلانية والقول بالحق في الرضى والسخط والقصد في الغنى والفقر. واما المهلكات: فهوى متبع وشح مطاع وإعجاب المرء بنفسه وهي اشدهن (روى البيهقي الاحاديث الخمسة في شعب الإيمان)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین چیزیں باعث نجات ہیں اور تین چیزیں باعث ہلاکت ہیں۔ باعث نجات چیزیں یہ ہیں: ظاہر و باطن میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا، رضا و ناراضی میں حق بات کرنا، اور تونگری و محتاجی میں میانہ روی اختیار کرنا۔ اور باعث ہلاکت چیزیں یہ ہیں: ایسی خواہش جس کی اتباع کی جائے، ایسا بخل جس کی اطاعت کی جائے، اور انسان کی خود پسندی، اور یہ ان سب سے زیادہ مہلک ہے۔

پتہ چلا کہ ہلاکت کی ایک وجہ نفسانی خواہشات کی اتباع کرنا بھی ہے۔ بلکہ ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ ہر برائی و گمرہی حتیٰ کہ کفر و شرک کا مرتکب بھی بندہ اتباعِ خواہشات کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔اسی لیے قرآن کریم میں اس کی اتباع کرنے پر سخت وعیدیں نازل ہوئی ہیں۔

اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ:

" فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ۔ (مریم:9)

ترجمہ کنز الایمان: تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے۔

آیت کریمہ میں صریح طور پر ذکر ہے کہ خواہشات کے پیروکاروں کو وادیِ غی میں ذالا جائے گا۔ اور مفسرین فرماتے ہیں کہ غی جہنم کی اتنی سخت وادی ہے کہ روزانہ جہنم بھی اس سے ستر ہزار مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ (الامان و الحفيظ)

ذرا اندازہ لگائیں کہ جس سے دوزخ پناہ مانگتی ہے اسے انسان کیسے برداشت کر پائے گا..؟ اب آئیے جانتے ہیں کہ نفسانی خواہشات کی اتباع میں بندہ کونسا کام انجام دیتا ہے..؟

نفسانی خواہشات کے چکر میں بندہ صغیرہ گناہ کرتے کرتے کبیرہ کا مرتکب ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اتباعِ شہوات کی وجہ سے دل اس قدر سیاہ ہو جاتا ہے کہ خواہشات کے مقابلے میں جو بھی آئے اسے وہ پس پشت ڈال دیتا ہے۔ خواہ وہ رب کائنات کا فرمان ہی کیوں نہ ہو۔

اسی خواہشات کی پیروی میں بندہ کبھی اللہ و رسول کی توہین کرکے کافر ہو جاتا ہے، تو کبھی گمراہیت کا پٹہ پہن لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف دنیا بلکہ اس کی آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔

موجودہ دور میں خواہشات کی اتباع کا جس قدر شہرہ ہے وہ تو کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں۔ مثلاً خوف خدا سے دوری، اللہ اور اس کے رسولوں کی توہین، دین کی بے حرمتی، صحابہ کرام و اولیائے عظام کی گستاخیاں، مساجد و مدارس کی ویرانیاں، حق بولنے سے پیچھے ہٹنا، روحانی اضطرابی، نیکیوں سے دل ہٹ جانا، شادیوں میں غیروں کے رسم و رواج اپنانا، بے پردگی، بے حیائی، غریبوں یتیموں کو کمتر سمجھنا، مال و شہرت کی نیت، ریاکاری، فضول خرچی، علم دین سے پیچھے رہنا، یہودیوں کی غلامی کرنا، وغیرہ وغیرہ جتنی برائیاں ہیں سب خواہشات کی اتباع کی وجہ سے ہی ہو رہی ہیں۔

یہاں تک کہ اسلاف فرماتے ہیں کہ: شیطان بھی انسان کے اندر اس کے نفس کے ذریعے قابو پاتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ یہ نفس کیسا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں بار بار اس پر قابو پانے کی ترغیب دی گئی۔ بلکہ آپ اپنی حقیقت پر غور کریں تو وہ بھی بے قرار ہو التجا کر رہی ہے اور نفس سے رہائی کی گہار لگا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بے چین و مضطرب ہیں۔

مگر افسوس ہم ابھی تک اپنے اندر کے دشمن سے نہیں جیت پائے غیروں سے تو دور کی بات ہے۔ آج ہم اپنے کھلے ہوئے دشمن یعنی نفس کے غلام بنے نظر آ رہے ہیں۔

یاد رکھیں! جب تک اس دشمن کو ہم نے شکست نہیں دی اور اس کی غلامی سے رہائی نہ ملی تب تک قرب الٰہی اور سعادت دارین میسر نہیں ہوگی۔ نیز ہم ایک بے کار شئی کی طرح اپنی زندگی گنوا دیں گے۔ جس کے نتیجے میں صرف اور صرف ندامت اور رسوائی حاصل ہوگی۔

کسی شاعر نے کہا ہے کہ:

جو سالک ہے تو اپنے نفس کا عرفان پیدا کر
حقیقت تیری کیا ہے پہلے یہ پہچان پیدا کر

مولیٰ کریم اپنے پیارے حبیبﷺ کے صدقے میں ہمیں اس آزمائش میں کامیابی عطا فرمائے اور اپنے نفس پر قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں