عنوان: | زبان کی حفاظت |
---|---|
تحریر: | بنت انصار |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے زبان بھی ایک انمول نعمت ہے۔ زبان انسان کی شخصیت کا آئینہ ہے۔ یہ نعمتِ خداوندی جہاں محبت بکھیر سکتی ہے، وہیں فساد بھی پھیلا سکتی ہے۔ جہاں دلوں کو جوڑ سکتی ہے، وہیں دلوں کو توڑ بھی سکتی ہے۔ جہاں سکون کا باعث بن سکتی ہے، وہیں دل آزاری کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ جہاں بے شمار نیکیاں کمانے کا ذریعہ ہے، وہیں جہنم میں لے جانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اسی لیے دینِ اسلام نے زبان کے استعمال پر بہت زور دیا ہے۔
اللہ ربّ العزت قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۔ (ق: ۱۸)
ترجمہ کنز الایمان: کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔
یعنی بندہ جو بات اپنی زبان سے نکالتا ہے، اسے لکھنے کے لیے ایک محافظ فرشتہ اس کے پاس تیار ہوتا ہے، خواہ وہ بندہ کہیں بھی ہو۔ لہٰذا زبان کا استعمال بہت احتیاط کے ساتھ کیا جانا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری زبان سے نکلا ہوا کوئی لفظ ہمیں عذابِ نار کا مستحق بنا دے۔
زبان کی حفاظت کے متعلق نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ، وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ، أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ۔ (صحیح البخاری: ۶۴۷۴)
ترجمہ: جو شخص مجھے اپنی زبان (منہ) اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
اس حدیثِ پاک سے واضح ہو گیا کہ زبان کی حفاظت سب سے عظیم انعام یعنی جنت میں داخلے کی ضمانت ہے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ النَّارَ، الْفَمُ وَالْفَرْجُ۔ (سنن الترمذی: ۲۰۰۴)
ترجمہ: سب سے زیادہ جو چیزیں لوگوں کو جہنم میں داخل کرتی ہیں، وہ زبان (منہ) اور شرم گاہ ہیں۔
اللہ اللہ! جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی حفاظت کو سب سے بڑی خوشخبری یعنی جنت میں داخل ہونے کا سبب بیان فرمایا، وہیں یہ بھی واضح کر دیا کہ زبان ہی ہے جس کے باعث لوگ جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے۔
زبان سے ہونے والے گناہوں کے معاشرتی نقصانات
نفرت اور دشمنی: جھوٹ، غیبت، چغلی اور بہتان جیسے گناہوں کے ذریعے آپس میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ تعلقات کمزور ہوتے ہیں، دلوں میں نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اور خاندان بکھرتے ہیں۔
اعتماد کا فقدان: جب کوئی شخص بار بار جھوٹ بولتا ہے یا چغلی کرتا ہے تو لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ ایک سچی اور صاف گو زبان ہی معاشرے میں عزت کا باعث بنتی ہے۔
بدامنی اور فتنہ: زبان کی لغزش معاشرے میں فتنہ اور فساد برپا کرتی ہے۔ جھوٹ اور چغلی وغیرہ پر مبنی باتوں کی وجہ سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔
زبان سے ہونے والے گناہوں کے روحانی نقصانات
دل کا سخت ہو جانا: زبان سے بری اور فحش باتوں اور جھوٹ، غیبت، چغلی وغیرہ کا ارتکاب دلوں کی سختی کا سبب بنتا ہے اور نیکیوں کی طرف رجحان کم ہو جاتا ہے۔
نیکیوں کی بربادی: احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نیکیاں کی پہاڑوں جیسی ہوں گی، مگر اس نے دوسروں کی چغلی کی ہوگی اور ان کی عزت پر حملہ کیا ہوگا، جس کی وجہ سے اس کی نیکیاں دوسروں کو دے دی جائیں گی۔
اللہ کی ناراضگی: زبان سے ہونے والے گناہ، جھوٹ، چغلی، بہتان اور وعدہ خلافی وغیرہ اللہ ربّ العزت کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں اور اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔
زبان سے خیر
جہاں زبان سے گناہ صادر ہوتے ہیں، وہیں اگر زبان کو خیر کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ انسان کو اللہ کا محبوب بنا دیتی ہے، دلوں کو جوڑتی ہے، دلوں کو سکون فراہم کرتی ہے اور معاشرے میں ایک خوشبو کی طرح پھیلتی ہے۔
زبان سے خیر کی چند مثالیں
ذکرِ الٰہی کا ذریعہ: زبان کا بہترین مصرف اللہ ربّ العزت کا ذکر ہے۔ سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، حسبنا اللہ و نعم الوکیل جیسے دیگر مختصر کلمات زبان پر ہوں اور دل میں اخلاص ہو تو اجر عظیم ہے۔
دوسروں کے دلوں کو خوش کرنا: نرم، میٹھے الفاظ بولنا، کسی کی حوصلہ افزائی کرنا، دعائیں دینا، کسی غمزدہ کو تسلی دینا، دو لوگوں کے درمیان صلح کرانا، کسی کی اصلاح یا تعریف کرنا—یہ سب زبان سے خیر ہے۔
علم کی اشاعت: علم سکھانا، قرآن پڑھانا یا نیکی کی بات پھیلانا، زبان کے ذریعے بہت بڑی نیکی اور صدقہ جاریہ ہے۔
حق بات کہنا: ظالم کے سامنے کلمۂ حق کہنا، مظلوم کے حق میں آواز اٹھانا وغیرہ—یہ زبان کی شجاعت ہے اور خیر ہے۔
زبان کی حفاظت کے عملی طریقے
بغیر سوچے سمجھے ہرگز کوئی بات نہیں کرنی چاہیے اور غیر ضروری گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر تمہیں کوئی دکھ دینے والی بات کہے تو تمہیں صبر کرنا چاہیے اور معاف کر دینا چاہیے، اس میں تمہارے لیے بڑا اجر و ثواب ہے۔
دو رخی باتیں ہرگز نہیں کرنی چاہیے کہ یہ دونوں جہان میں رسوائی کا سامان ہے۔جھوٹ ہرگز نہیں بولنا چاہیے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔کبھی بھی کسی سے جھوٹا وعدہ نہیں کرنا چاہیے۔سنی سنائی باتوں کو بلا تحقیق کسی سے نہیں کہنا چاہیے۔
کبھی ایسا ہنسی مذاق نہیں کرنا چاہیے جس میں دوسرے کی تذلیل ہو۔ہمیشہ لوگوں کو اچھی باتوں کی طرف رغبت دلانی چاہیے اور بری باتوں سے منع کرنا چاہیے۔
آخر میں یہی کہنا بجا ہوگا کہ زبان ایک نعمتِ عظمیٰ ہے، لیکن اس کا صحیح اور محتاط استعمال ہی انسان کو فلاح اور کامیابی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ ہمارے لیے یہ لازم ہے کہ ہم اپنی زبان کو ہر وقت اللہ کی یاد، سچائی، نرمی اور خیر کے کاموں میں مشغول رکھیں اور اسے جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان اور فضول گوئی سے محفوظ رکھیں۔
ربِّ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ مولا ہمیں زبان کی لغزشوں سے محفوظ فرمائے، ہماری گفتگو کو خیر کا ذریعہ بنائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جن کی زبانیں دوسروں کے لیے محبت اور سکون کا باعث ہیں۔ آمین یا ربّ العالمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم