عنوان: | شب زفاف کی نماز برکت یا پوزنگ کا تماشہ |
---|---|
تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
آج کے سوشل میڈیا دور میں کچھ بے شعور، دینی غیرت سے خالی، اور سستی شہرت کے مریض مسلمان ٹرینڈ کی زد میں آکر شریعت کے احکامات کو پیشِ پشت ڈالتے نظر آ رہے۔
شادی میں ہونے والی لا تعداد خرافات اور حرام کاریوں میں اب نماز جیسے مقدّس عمل کو بھی فیشن اور ٹرینڈ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ افسوس کہ جس عبادت کو رب سے راز و نیاز کا ذریعہ ہونا چاہیے تھا، آج وہ فوٹوگرافی، پوز اور کیمرہ اینگلز کا کھیل بن چکی ہے۔
شبِ زفاف (شادی کی پہلی رات) دو رکعت نماز رکعت پڑھنا مستحب عمل، خیر و برکت اور میاں بیوی میں باہم الفت ومحبت کا ذریعہ ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
وعن أبي وائل قال: جاء رجل من بجيلة إلى عبد الله يعني ابن مسعود فقال : إني تزوجت جارية بكرا ، وإني خشيت أن تفركني . فقال عبد الله : ألا إن الإلف من الله ، وإن الفرك من الشيطان ليكره إليه ما أحل الله فإذا دخلت عليها فمرها فلتصل خلفك ركعتين. (مجمع الزاوئد ومنبع الفوائد 7547)
ترجمہ: حضرت ابو وائل بیان کرتے ہیں بجیلہ قبیلے کا ایک شخص حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا: میں نے ایک کنواری لڑکی سے نکاح کیا ہے، اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے ناپسند کرے گی۔ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سنو! محبت (الفت) اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اور ناپسندیدگی (الفرک) شیطان کی طرف سے، تاکہ وہ انسان کو اس چیز سے کراہت دلائے جسے اللہ نے اس کے لیے حلال فرمایا ہے۔ پس جب تُو (شب زفاف میں) اس (بیوی) کے پاس جائے تو اُسے حکم دے کے و تیرے پیچھے دو رکعت نماز پڑھے۔
شبِ زفاف کا یہ با برکت عمل جو دراصل شکر، نیک ابتدا اور برکت کا ذریعہ ہے، آج محض ایک ریلز کا سین، پوزنگ کا فریم، اور دکھاوے کا تماشا بن کر رہ گیا ہے۔ جس میں نہ نیت ہو، نہ وضو، نہ لباسِ شرعی، نہ نیتِ عبادت، تو یہ نماز نہیں بلکہ ایک مذاق ہے۔
یہ عمل بظاہر دینی لگ سکتا ہے، مگر حقیقت میں یہ کئی جہات سے غلط، غیر شرعی اور ناپسندیدہ ہے۔
- عبادت میں نیت صرف اللہ کی رضا ہونی چاہیے، جب نماز کسی اور کو دکھانے کے لیے ہو، تو وہ عبادت نہیں، ریاکاری (دکھاوا) بن جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ ریاکاروں کے عمل کو قبول نہیں فرماتا۔ حدیث میں ہے: من صلى وهو يراني فقد أشرك۔ (کنز العمال: 7528) ترجمہ: جس نے نماز دکھاوے (ریا کاری) کے لیے پڑھی، اس نے شرک کیا۔
- میاں بیوی شو روم جیسے لباس میں، جھلملاتے میک اپ، باریک جوڑوں، اور اداکاری بھرے رکوع و سجود کے ساتھ فوٹوگرافر کی ہدایت پر نماز پڑھنے کی ایکٹنگ کر رہے ہوتے ہیں، دلہن شرعی حجاب سے عاری لباس میں نماز ادا کرتی نظر آتی ہیں، اس لباس میں نماز ادا ہی نہیں ہوتی، کیونکہ ستر ڈھانپنا فرض ہے۔
- فوٹوگرافنگ جیسے عمل کی اسلام اجازت نہیں دیتا، اور پھر شادیوں میں فوٹوگرافر مرد، جو دلہن کے آگے پیچھے گھومتے ہیں، نہ پردے کا پاس و لحاظ نہ شرم و حیا کا خیال بلکہ فوٹوگرافر کی ہدایت پر ہی پوز دیئے جاتے ہیں، جبکہ شریعت میں عورت کا زینت کے ساتھ کسی غیر محرم کے سامنے آنا حرام ہے۔
- نماز جیسا پاکیزہ عمل حرام کام (فوٹو) کے لیے کیا جائے، اس پر تبصرے ہوں، لائک اور کمنٹس ہوں، لوگ اسے پرفیکٹ شادی کہیں، تو یہ درحقیقت نماز کو تماشا بنانے کے مترادف ہے۔
ایسا کرنے والوں کو خود کو مسلمان کہتے ہوئے شرم آنی چاہئے، جو نماز ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے آج ہم نے اس کا تماشا، اس کا مذاق بنا کے رکھ دیا ہے۔
شوہر اور بیوی کو چاہیے کہ حصولِ برکت اور باہمی اتفاق و دائمی محبّت کے لیے حرام کاریوں سے بچ کر سنت کے مطابق اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں، نماز پڑھیں، لیکن اللہ کے لیے، نہ کہ کیمرے کے لیے۔
تصویر کھنچوانے سے وہ ثواب فوت ہو جاتا ہے جس نیت سے نماز پڑھی گئی تھی، اور دکھاوا شامل ہو کر عمل کو ضائع کر دیتا ہے، کیونکہ عبادت دکھاوے کے لیے نہیں، اللہ کے لیے ہے۔
اگر واقعی شبِ زفاف کی نماز پڑھنی ہے، تو اخلاص، تنہائی، اور شریعت کے دائرے میں رہ کر ادا کیجئے۔ ورنہ یہ سب کچھ محض فریبِ نفس، شیطانی خوش فہمی، اور دین کا کھلا مذاق ہے، جس کا وبال دنیا و آخرت میں بھگتنا پڑے گا۔