عنوان: | حضرت عطار کی سادات سے محبت کی کچھ جھلکیاں |
---|---|
تحریر: | مولانا عمران رضا عطاری مدنی بنارسی |
سادات سے عقیدت و محبت رکھنا، ان کی تعظیم کرنا، دوسروں پر ان کو فوقیت دینا شروع سے اہلِ سنت و جماعت کا طریقہ کار رہا ہے۔ ہر سنی سید سے خوب محبت کرتا ہے، ان کے نام کی محافل کا انعقاد کر کے ان کا ذکر کرتا ہے۔ یہی ہمیں بزرگوں سے وراثت میں ملا۔ بلکہ ان کی محبت کا درس تو خود قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ علیهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- [الشوریٰ: 23]
ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
تفسیر خزائن العرفان میں ہے:
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آپ کے اقارب (یعنی رشتے داروں) کی محبت دین کے فرائض میں سے ہے۔
امیرِ اہلِ سنت حضرت عطار کی سادات سے کس قدر محبت ہے، یہ لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ اس دور میں ساداتِ کرام سے پیار و محبت کا جو نرالا انداز حضرت عطار کا ہے، وہ کہیں اور نظر نہیں آتا۔ ہمیں ان کی سیرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خاندانِ مصطفیٰ، ساداتِ کرام کی دل و جان سے تعظیم و توقیر کرنی چاہیے۔ ہر حال میں ان کا ادب و احترام بجا لانا چاہیے۔ یہی تعلیم ہمیں بریلی کے امام سیدی سرکار امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے دی۔ نہ صرف حکم دیا، بلکہ خود قابلِ تقلید عمل کر کے بھی دکھایا ہے۔
آپ فرماتے ہیں: ساداتِ کرام کی تعظیم فرض ہے اور ان کی توہین حرام ہے۔ [فتاویٰ رضویہ، ج: 22، ص: 420]
اس سال [بقرعید ۱۴۴۶ھ] کو بعدِ نمازِ عید حضرت عطار نے اعلان کیا کہ میری نیت ہے کہ سب سے پہلے کسی سید صاحب سے عید ملوں (معانقہ کروں)!
محترم قارئین! یقیناً یہ جملہ ساداتِ کرام سے محبت و عقیدت کا سنہرا انداز ہے، جو امیرِ اہلِ سنت کی سیرت میں نمایاں نظر آتا ہے۔
اسی طرح حضرت عطار نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میں اس لیے اعلان کر رہا ہوں تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی غیر سید ملاقات کرنے آئے اور میں اس سے ملاقات نہ کروں، کہ کہیں اس کی دل آزاری نہ ہو جائے۔
ذرا غور کریں کہ حضرت عطار کس قدر محتاط ہیں، اور اس بات کا کتنا خیال فرما رہے ہیں کہ میری وجہ سے کسی شخص کی دل آزاری نہ ہو جائے، میری وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچ جائے۔ اللہ اکبر!
اسی طرح حضرت عطار کی سیرت کا اہم عمدہ پہلو یہ بھی ہے کہ آپ جب کوئی چیز تقسیم کرتے ہیں یا عیدی بانٹتے ہیں، تو عام لوگوں کو ایک ایک دیتے ہیں، لیکن ساداتِ کرام کو دو عطا فرماتے ہیں۔
حضرت عطار جب کسی کو کچھ دیتے ہیں، تو ’’عطا فرماتے ہیں‘‘، یعنی آپ کا ہاتھ اوپر اور لینے والے کا ہاتھ نیچے ہوتا ہے، جیسا کہ دینے کا طریقہ کار ہے۔ لیکن جب کوئی چیز آلِ رسول، سید صاحب کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں، تو اپنے ہاتھوں کو نیچے کر کے باادب اور محبت والے انداز میں پیش کرتے ہیں، تاکہ وہ چیز سید صاحب ہاتھ سے اٹھا لیں اور سید صاحب کا ہاتھ بھی اوپر رہے، گویا کہ آپ کچھ لے رہے ہوں۔ واہ، کیا خوبصورت انداز ہے، کیا محبت ہے آلِ رسول سے! سبحان اللہ!
حضرت عطار جب عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کی سنگِ بنیاد رکھنے تشریف لائے، تو ۱۲ ساداتِ کرام کو طلب فرمایا، اور ان کے مبارک ہاتھوں سے سنگِ بنیاد رکھوائی، تاکہ فیضانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاصل ہو۔
امیرِ اہلِ سنت کی وصیت:
عاشقِ صحابہ و اہلِ بیت، بانیِ دعوتِ اسلامی، امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نے ایک سید صاحب کے انتقال پر راقم الحروف (مولانا طاہر مدنی) کو کچھ اس طرح واٹس ایپ پیغام بھیجا، جو نوک پلک سنوار کر پیش کیا جا رہا ہے۔ امیرِ اہلِ سنت کے اس پیغام میں ہر عاشقِ رسول کے لیے بہت بڑا درس ہے۔ غور سے پڑھیے اور اسے سمجھ کر اپنے لوحِ دل (یعنی دل کی تختی) میں محفوظ کر لیجیے۔
آپ فرماتے ہیں:
اگر آخرت میں بے خوف ہونا چاہتے ہیں، تو سادات سے ڈرا کریں (یعنی ان کے بارے میں کوئی بھی نامناسب بات کہنے، سننے اور دیکھنے سے بچیں)۔ ان شاء اللہ آخرت میں بے خوف ہو جائیں گے۔
قیامت کے دن سادات کے ناناجان رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے لَا تَحْزَنْ کا پیغام ملے گا، بلکہ کہا جائے گا: میری آل سے محبت کرنے والے، آج آ جا! میرے دامنِ رحمت میں چھپ جا اور جنت میں داخل ہو جا! ان شاء اللہ الکریم۔
کچھ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب ان کا کسی سید صاحب سے کچھ نزاعی معاملہ ہو، یا آپس میں کچھ رنجش ہو، تو بجائے اس کے کہ وہ سید صاحب سے درگزر کریں، کچھ لوگ سید صاحب کی سیادت پر اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بہت غلیظ حرکت اور ناجائز کام ہے۔ جو لوگ اس میں مبتلا ہیں، انہیں چاہیے کہ اس سے توبہ کریں اور کبھی بھی سید کی سیادت پر انگلی نہ اٹھائیں!
اس موضوع پر مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے مکتبۃ المدینہ کا رسالہ بنام امیرِ اہلِ سنت اور تعظیمِ سادات کا مطالعہ فرمائیں۔