✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

کرائے کی کوکھ (Surrogacy) جدید سائنس کا غیر شرعی تحفہ

عنوان: کرائے کی کوکھ (Surrogacy) جدید سائنس کا غیر شرعی تحفہ
تحریر: عالیہ فاطمہ انیسی
پیش کش: مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد

جب سے انسان نے زمین پر قدم رکھا ہے، تخلیقِ نسل اور اولاد کا سلسلہ ایک پاکیزہ، فطری اور مقدس نظام کے تحت چلتا رہا ہے۔ نکاح کا رشتہ، ماں کی گود، باپ کی سرپرستی، اور خون کا تعلق، نسل انسانی کے بقا اور شرف کا ضامن رہا ہے۔ مگر جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی اور مادی دنیا نے اخلاقی قدریں پسِ پشت ڈال دیں، انسان نے خود اپنے فطری نظام میں بگاڑ پیدا کر لیا۔

آج کا انسان آزادی اور جدیدیت کے نام پر ان حدود کو روند چکا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی عزت، نسل کی حفاظت اور خاندان کے تحفظ کے لیے متعین فرمائی تھیں۔

۔

جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی راہ پر قدم رکھا تو ابتدا میں صرف بیماریوں کا علاج، انسانی جسم کی آسانیاں اور صحت مند زندگی مقصود تھی، لیکن جب سے سائنس نے اخلاقیات سے آزاد ہو کر صرف تجربات کی بنیاد پر ترقی کی، انسانیت کی بنیادیں لرزنے لگیں۔ پہلے تو عورت کو آزاد کرنے کے نام پر اُسے ولادت سے روکنے والی دوائیں دی گئیں گولیاں، ٹیکے، کنڈوم، کوپر ٹی، ڈایفرام جیسے ذرائع کو عام کر کے ماں بننے جیسے فطری عمل کو گناہ سمجھایا گیا۔

پھر جب کچھ اور ترقی ہوئی تو نئی نسل کی پیدائش کو مکمل لیبارٹری میں تیار کرنے کے خواب بیچے گئے IVF، Test Tube Baby، اور آخر کار Surrogacy (کرائے کی کوکھ) جیسے غیر فطری، غیر اخلاقی اور غیر شرعی تجربات نے نسلِ انسانی کو ایک مشینی پیداوار میں بدل دیا۔ افسوس کہ آج ماں کا مقدس رشتہ بھی ایک سروس یا پروجیکٹ بن چکا ہے، جہاں نہ نسب محفوظ رہا، نہ ممتا کا رشتہ، اور نہ ہی خاندان کی حرمت۔

یہی وجہ ہے کہ آج بچے کی پیدائش کا معاملہ محض ایک سائنسی تجربہ بن کر رہ گیا ہے، جہاں رحم اور نطفہ جیسے مقدس اجزاء بھی خرید و فروخت کا عنوان بن چکے ہیں۔

سیروگیسی (Surrogacy) کیا ہے؟

سیروگیسی (Surrogacy) ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ایک عورت کسی دوسرے مرد اور عورت کے بچے کو اپنے پیٹ میں رکھ کر نو مہینے تک پالتی ہے، اور بچہ پیدا ہونے کے بعد انہیں سونپ دیتی ہے۔

اس عمل میں جو عورت حمل اٹھاتی ہے، اسے "Surrogate Mother" یعنی کرائے کی ماں کہا جاتا ہے۔ یہ عورت بچے کی حقیقی ماں نہیں ہوتی، بلکہ صرف رحم (womb) دے کر حمل کی مدت مکمل کرتی ہے۔

مثلاََ مان لیجیے کہ ایک عورت کو بچہ نہیں ہو سکتا، تو وہ عورت اپنا بیضہ (egg) اور اس کا شوہر اپنا نطفہ (sperm) لے کر کسی اور عورت کے رحم میں رکھواتے ہیں۔ اب بچہ اُن دونوں کا ہوتا ہے، لیکن حمل اور پیدائش وہ تیسری عورت کرتی ہے۔

ہندوستان میں کرائے کی کوکھ یعنی Surrogacy پر قانونی بحث ایک عرصے سے جاری رہی، جس کا نتیجہ "Surrogacy (Regulation) Act 2021" کی صورت میں سامنے آیا، جو 25 دسمبر 2021 کو پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور 2022 سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔

اگرچہ یہ قانون تجارتی سروگیسی پر پابندی لگاتا ہے، لیکن اسلامی شریعت کے مطابق ہمدردی پر مبنی سروگیسی بھی ناجائز ہے، کیونکہ اس میں رحم کی تبدیلی ہوتی ہے، ماں کے تعلق کی شناخت مشتبہ ہو جاتی ہے، نسب کا اختلاط ممکن ہے، شرعی ماں کون ہے؟ اس کا تعین مشکل ہو جاتا ہے۔

اسلام ایک ایسا مکمل دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کبھی بھی ایسے طریقوں کو قبول نہیں کر سکتا، چاہے ان کے لیے کتنا ہی خوبصورت یا سائنسی نام کیوں نہ رکھ لیا جائے۔

جس طرح خون انسان کے جسم کا ایک اہم، قیمتی اور حساس مادہ ہے، اور اس کا غیر فطری استعمال یا بہاؤ ناپاک (نجاستِ غلیظہ) تصور کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح منی (Semen) بھی انسان کا ایک عظیم جوہرِ حیات اور تخلیقِ نسل کا ذریعہ ہے، جو شریعت کی حدود میں صرف نکاح کے رشتے کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس کا غیر فطری استعمال، کہیں بینکوں میں ذخیرہ کر کے، کہیں مصنوعی طریقے سے رحم میں داخل کر کے، اور کہیں کرائے کی کوکھ کے ذریعے، اسلامی طہارت، عزتِ انسان، اور نظامِ نسب کے ساتھ کھلواڑ ہے، جسے کسی حال میں جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے نسلِ انسانی کے بقا اور اولاد کے حصول کے لیے نکاح کا فطری اور محفوظ نظام مقرر فرمایا ہے۔ جس طرح اناج و غلہ کے لیے زمین پر ہی زراعت کی جاتی ہے، اسی طرح اولاد کے حصول کے لیے عورت کو مثل کھیتی قرار دیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنّٰى شِئْتُمْ (البقرۃ: 223)

ترجمہ کنزالایمان: تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں، تو آؤ اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو۔

اس آیتِ کریمہ میں ازدواجی تعلق کو کھیتی سے تشبیہ دے کر یہ سمجھایا گیا ہے کہ جس طرح دوسرے کی زمین میں زراعت کرنا ناجائز ہے، اسی طرح اپنی منکوحہ یا مملوکہ کے سوا کسی اور عورت کے رحم کو مادۂ منویہ سے سیراب کرنا بھی ناجائز اور حرام ہے، چاہے وہ فطری طریقے (جسمانی تعلق) سے ہو یا غیر فطری طریقے (IVF، Surrogacy وغیرہ) سے ہو۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ" (السنن الکبریٰ للبیہقی: 1214)

ترجمہ: جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنا پانی (مادۂ منویہ) دوسرے کے کھیت (یعنی اجنبی عورت) میں ڈالے۔

اب رہا نسب (lineage) کا معاملہ تو اسلام میں نسب (خونی رشتہ) کا تحفظ ایک بنیادی اصول ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے:

اُدْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ (الاحزاب: 5)

ترجمہ کنزالایمان: انہیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے۔

اسلام کسی بھی ایسے عمل کی اجازت نہیں دیتا جو نسب کے معاملے کو مشکوک یا خلط ملط کر دے۔ Surrogacy میں بچہ رحم سے پیدا ضرور ہوتا ہے، مگر وہ ماں کون ہے؟ جس نے جنا یا جس کا نطفہ تھا؟ یہ معاملہ واضح نہیں رہتا۔

مرد کا نطفہ کسی غیر محرم عورت کے رحم میں رکھنا، خواہ بغیر مباشرت ہو یا طبی طریقے سے، شریعت کی نظر میں حرام ہے۔ اس لیے کہ یہ عمل نکاح کے دائرے سے باہر ہے اور زنا کے مشابہ ہے۔

سروگیسی (Surrogacy) میں ایک میاں اور بیوی، جب اپنا نطفہ (Sperm) اور بیضہ (Egg) لے کر کسی تیسری عورت کے رحم (Womb) میں رکھواتے ہیں، تو جدید قانون اور میڈیکل فیلڈ میں بچے کو انہی میاں بیوی کا تصور کیا جاتا ہے، جنہوں نے نطفہ اور بیضہ دیا، جبکہ وہ عورت جس نے حمل اٹھایا، اس کا بچہ سے کوئی رشتہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔

لیکن شریعتِ مطہرہ کی رو سے وہ عورت (surrogate mother) جس کے رحم میں بچّہ پلا، وہ شادی شدہ (منکوحہ) ہے، تو بچہ کا نسب اسی عورت کے شوہر سے جُڑے گا، کیونکہ حدیث میں ہے: الولد للفراش یعنی "بچہ اسی کا ہے جس کا بستر (نکاحی تعلّق) ہو۔

اور اگر وہ عورت غیر شادی شدہ ہے، تو بچہ اسی عورت کا شمار ہوگا جس نے اسے جنا ہے، چاہے بیضہ کسی اور عورت کا ہو یا نطفہ کسی اور مرد کا۔

اِرشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا الّٰئِي وَلَدْنَهُمْؕ (المجادلۃ:02)

ترجمہ کنزالایمان: ان کی مائیں تو وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہیں۔

یہ تمام تفصیلات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ سروگیسی (Surrogacy) کا طریقہ، چاہے کتنا ہی طبی سہولت یا سائنس کی کامیابی کے عنوان سے پیش کیا جائے، اسلامی اقدار و تعلیمات سے کسی بھی زاویے سے ہم آہنگ نہیں۔

ہر مسلمان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام نے اولاد کے حصول کے لیے جو راستے مقرر کیے ہیں وہ نہایت پاکیزہ، محفوظ اور فطری ہیں۔ اگر کسی مرد یا عورت کو اولاد نہ ہو رہی ہو تو شریعت مطہرہ نے اس کے لیے صبر، دعا، اور جائز تدابیر کا راستہ رکھا ہے۔ مرد کے لیے دوسرا نکاح اس صورت میں جائز و مشروع ہے جب وہ عدل و انصاف کی شرط پوری کر سکتا ہو۔

لہٰذا اگر پہلی بیوی سے اولاد نہ ہو رہی ہو تو دوسری شادی کرنا نہ صرف شریعت کی نظر میں جائز بلکہ فطرت کے عین مطابق بھی ہے۔ ایسے میں معاشرتی دباؤ یا طعنہ زنی کی بنیاد پر شریعت کے جائز حکم کو معیوب سمجھنا بذاتِ خود معیوب اور قابلِ مذمت ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر قائم رہیں، صبر و توکل اور شریعت کے حدود میں رہ کر اپنی ضروریات پوری کریں۔ اور surrogacy (کرائے کی کوکھ جیسے) فتنوں سے خود کی حفاظت کریں۔ اسلام نے ہر دور میں انسانیت کی رہنمائی کی ہے، اور آج بھی وہی واحد دین ہے جو عفت، حیاء، اور خاندانی نظام کی حفاظت کا ضامن ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں