عنوان: | درختوں کے حقوق |
---|---|
تحریر: | محمد سمیر خان عطاری حیدرآبادی |
یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہ انسان بغیر سانس (آکسیجن) کے نہیں جی سکتا، اور آکسیجن بنانے میں بڑا کردار درختوں کا ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ جہاں درخت ہوتے ہیں، وہاں کا منظر بھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے، اور وہاں کا درجہ حرارت بھی کم رہتا ہے۔ درخت قدرت کا ایک خاموش تحفہ ہے۔ نیز یہاں تک بتایا جاتا ہے کہ سبز درختوں کو دیکھنا بصارت کے لیے مفید ہے۔ درحقیقت، درخت نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
محترم قارئین اکرام! ایک شہری ہونے کے ناطے ہم پر لازم ہے کہ اپنے ملک اور ملک والوں کی حفاظت کریں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔ درخت لگانے کے جہاں دنیوی فائدے ہیں، وہیں دینی فوائد بھی ہیں۔ چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے، پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا جانور کھائے، تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔ [مسلم، کتاب المساقات والمزارعة، حدیث: ۱۵۵۳، ص: ٦۵۵، طبع: الرسالة]
سبحان اللہ! شجرکاری نہ صرف اس کے لیے، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی فائدہ مند رہے گی۔ یہاں تک کہ وہ اگر دنیا سے چلا بھی جائے، تب بھی قبر میں اس کا ثواب جاری رہے گا۔
درخت لگانا جتنا ضروری ہے، اس سے بڑھ کر اس کے حقوق ادا کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ اولاً یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جس طرح ہر چیز کے متعلق چند حقوق ہوتے ہیں، مثلاً اولاد کے والدین پر حقوق، مرید پر اپنے پیر و مرشد کے حقوق، شاگرد پر اپنے استاد کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ وغیرہ وعلیٰ ہذا القیاس۔ اسی طرح درختوں کے بھی چند حقوق ہوتے ہیں، اور ان میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے:
- آج انسان ترقی کے نام پر دھیرے دھیرے درختوں کو کاٹتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہماری دھرتی پر گلوبل وارمنگ کا بڑا گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ تو سب سے بڑا درختوں کا حق یہ ہے کہ ہر انسان اپنے اطراف واکناف میں زیادہ سے زیادہ شجرکاری کرے۔ ہر گھر میں کم از کم ایک درخت ہونا چاہیے۔ اگر یہ مشکل ہے، تو چھوٹے گملوں میں مخصوص پودے لگائے جائیں۔
- جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ بیج بونے یا پودا لگانے کے بعد اسے درخت بنانے کے لیے پانی اور دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا پودے کو حسبِ حاجت پانی اور دھوپ فراہم کرنا بھی ایک حق ہے۔
- بعض اوقات درختوں پر چھوٹے چھوٹے کیڑے لگ جاتے ہیں۔ اگر وقت پر دوائی وغیرہ کا استعمال نہ کیا جائے، تو درخت ضائع ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ لہٰذا درختوں کو وقتاً فوقتاً حسبِ ضرورت دوائی ڈالی جائے۔
- پودا درخت بننے کے بعد اس کی صفائی ستھرائی اور کانٹ چھانٹ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے، تاکہ کسی کو بھی اس کی شاخوں اور جھڑنے والے پتوں وغیرہ سے ایذا نہ ہو۔ اسی طرح کانٹے دار پودے لگانے سے بچا جائے، کیونکہ انہیں گھر میں لگانے کی صورت میں بچوں اور گھر کے دیگر افراد کو تکلیف پہنچ سکتی ہے۔ نیز اگر یہ پودے بڑھ کر درخت کی صورت اختیار کر گئے اور ان کی شاخیں پھیل کر پڑوسیوں کے گھروں تک پہنچ گئیں، تو انہیں بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا ایسے درختوں سے بھی اجتناب کیا جائے تو بہتر ہوگا۔
- پودے کو درخت بنانا بھی نہایت مشکل امر ہے۔ کیونکہ پودے کی مثال چھوٹے بچے کی طرح ہے۔ جس طرح والدین بچے کو ہر موذی چیز سے بچاتے ہیں، اسی طرح درخت کو موذی جانوروں سے بچانا ہے کہ کہیں یہ درخت ان کی غذا نہ بن جائے۔ اس کے لیے پودے کے اطراف میں جالی لگا دی جائے، تاکہ بآسانی اس کی نگہداشت ہو سکے۔
- اسی طرح درختوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے صحیح مقام پر لگایا جائے، تاکہ مستقبل میں کبھی درخت کو وہاں سے کاٹنے یا ہٹانے کی ضرورت نہ پڑے۔ بالخصوص وقف کی زمینوں میں درخت لگانے سے پہلے دارالافتاء اہلِ سنت سے رجوع کر لیا جائے۔ نیز غیر کی ملکیت میں مالک کی اجازت کے بغیر درخت لگانا درست نہیں۔ لہٰذا درخت لگانے سے پہلے اس زمین کے متعلق معلوم کر لیا جائے۔
دنیا میں رہتے ہوئے صرف ایک سیکنڈ میں درخت لگانا بہت مشکل امر ہے، لیکن صرف ایک سیکنڈ میں جنت کے اندر ایک درخت لگایا جا سکتا ہے، اور جنت میں درخت لگانے کا طریقہ بھی نہایت آسان ہے۔ چنانچہ ابن ماجہ شریف کی ایک حدیث پاک کے مطابق ان چار کلمات میں سے جو بھی کلمہ کہا جائے، اس سے جنت میں ایک درخت لگا دیا جائے گا۔ وہ کلمات یہ ہیں:
سبحان الله، الحمد لله، لا إله إلا الله، الله أكبر [سنن ابن ماجہ، ج: ۳، ص: ۲۵۲، حدیث: ۳۸۰۷، دارالمعرفة، بیروت]
اپنے ملک کو ہرا بھرا رکھنے اور اہلِ وطن کو فائدہ پہنچانے کی نیت سے خوب درخت لگائیں۔ الحمدللہ، دعوتِ اسلامی کے کئی سارے شعبہ جات ہیں، انہی میں سے ایک شعبہ GNRF بھی ہے، جو یہ کام اچھے سے انجام دیتا ہے۔ ہر طرح سے اس کی بھی مدد ہونی چاہیے۔
امیرِ اہلِ سنت نے بڑا پیارا نعرہ عطا فرمایا ہے:
درخت لگانا ہے، پودا بنانا ہے۔ ان شاء اللہ
آؤ لوگو، سب مل کر اک شجر لگاتے ہیں
سر پر ٹھنڈی چھت والا ایک گھر بناتے ہیں