دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

تعریف کا جواز اور عدم جواز

عنوان: تعریف کا جواز اور عدم جواز
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

انسانی معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تعریف حق پر مبنی ہوتی ہے اور بعض اوقات محض خوش آمد اور مبالغے پر۔ تعریف کا جواز یا عدم جواز، دراصل ممدوح (جس کی تعریف کی جا رہی ہو) اور مادح (جو تعریف کر رہا ہو) کے حالات، نیت اور مزاج پر منحصر ہے۔

کچھ لوگ اپنی بےجا تعریف کے لالچی ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سننا پسند کرتے ہیں اور ایسی تعریف سن کر عُجب اور تکبر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعریف کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ اس مرض میں مبتلا شخص کو چاہیے کہ وہ خود لوگوں کو اپنے سامنے تعریف کرنے سے منع کرے، تاکہ اس کے دل میں تکبر پیدا نہ ہو۔

اسی طرح کچھ لوگ محض اپنا مقام بڑھانے یا ممدوح کی نظروں میں خاص بننے کے لیے خوشامد بھرے جملے بولتے ہیں۔ یہ رویہ جھوٹ اور نفاق کے قریب ہے اور ناجائز ہے۔

تعریف کا غلط اثر

بعض اوقات لوگ دینی یا دنیاوی میدان میں کسی کی کامیابی دیکھ کر اس انداز میں تعریف کرتے ہیں جیسے وہ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ چکا ہو اور مزید محنت کی ضرورت نہ ہو۔ یہ تعریف دراصل اس کے شوقِ عمل کو کم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی لیے رسول کریم ﷺ نے ایسی تعریف سے منع فرمایا۔

مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے سامنے دوسرے شخص کی مدح و تعریف کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا:

وَيْلَكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ، مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ أَنْ يُمْدَحَ، وَيُسَرَّ بِذَلِكَ، إِلَّا قَدْ ذَهَبَتْ حَسَنَاتُهُ (سنن ابن ماجہ: 3744)

ترجمہ: افسوس! تم نے اپنے بھائی کی گردن توڑ دی، تم نے اپنے بھائی کی گردن توڑ دی۔ جو شخص یہ پسند کرے کہ اس کی تعریف کی جائے اور وہ اس سے خوش ہو تو اس کی نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔

جائز تعریف اور حوصلہ افزائی

اگر تعریف کا مقصد کسی کی حوصلہ افزائی ہو، یا اس کی محنت پر اسے مزید ترغیب دینا ہو، تو یہ تعریف جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کی بعض اوقات تعریف فرمایا کرتے تھے تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں۔

اسی طرح کسی کے احسان کا بدلہ چکانے کے لیے اس کی حقیقت پر مبنی تعریف کرنا، دراصل شکریہ ادا کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ لَا يَشْكُرِ النَّاسَ لَا يَشْكُرِ اللهَ (سنن ابی داؤد: 4811)

ترجمہ: جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔

تعریف میں اعتدال

اسلام اعتدال کا دین ہے اور ہر معاملے میں میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ اسی لیے تعریف میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں عموماً اپنے پسندیدہ لوگوں کی تعریف میں مبالغہ اور حد سے زیادہ القابات استعمال کیے جاتے ہیں۔ جلسوں اور تقریبات میں خطبہ دینے سے پہلے خطیب کو ایسے اوصاف سے نوازا جاتا ہے جو حقیقت میں اس میں موجود ہی نہیں ہوتے۔ ماضی کے جلیل القدر علماء سے بےجا مشابہت دی جاتی ہے۔

ایسی مبالغہ آمیز تعریف کے کئی نقصانات ہیں:

یہ ممدوح کو تکبر اور عجب میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اگر وہ تعریف اسے گراں گزرے تو یہ اسے اذیت دینے کے مترادف ہے، اور مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں۔ تعریف دراصل ایک قسم کی گواہی ہے، اور گواہی اسی امر کی دی جا سکتی ہے جس کا مشاہدہ یقینی ہو۔

تعریف کا درست طریقہ

اگر کسی کی خوبی کا ذکر کرنا ضروری ہو تو محتاط الفاظ استعمال کیے جائیں، مثلاً: میں فلاں شخص کو اچھا سمجھتا ہوں یا میرے گمان کے مطابق وہ نیک ہے۔

جس شخص کی تعریف کی جائے، اسے چاہیے کہ وہ اپنی حالت کا جائزہ لے۔ اگر واقعی وہ خوبیاں موجود ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرے اور استقامت کی دعا کرے، اور اگر نہیں ہیں تو لوگوں کے گمان کو حقیقت بنانے کی کوشش کرے۔

تعریف ایک حساس عمل ہے، جو بسا اوقات حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہے اور بسا اوقات تکبر اور تنزلی کا۔ اسلام میں تعریف کے باب میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ نہ تو بلاوجہ خوشامد کی اجازت ہے اور نہ ہی حقیقی خوبیوں کو چھپانے کی۔ درست موقع اور درست نیت کے ساتھ، محتاط اور سچائی پر مبنی تعریف ہی خیر و برکت کا سبب بن سکتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں