دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

حضورﷺ کو اُمّی کہنے کی وجہ اور چند حکمتیں

عنوان: حضورﷺ کو اُمّی کہنے کی وجہ اور چند حکمتیں
تحریر: محمد فرقان رضا حنفی
پیش کش: جامعہ عربیہ انوارالقرآن، بلرام پور


حضور سرورِ عالمﷺ کا لقب ،،اُمّی،، ہے۔ اس لفظ کے دو معنی ہیں یا تو یہ ،،اُمُّ القریٰ،، کی طرف نسبت ہے۔ ،، اُمُّ القریٰ مکّہ مکرمہ کا لقب ہے۔ لہٰذا ،،اُمّی،، کے معنی مکّہ مکرمہ کے رہنے والے یا،، اُمّی،، کے یہ معنی ہیں کہ آپ نے دُنیا میں کسی انسان سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔

یہ حضورﷺ کا بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے کہ دُنیا میں کسی نے بھی آپ کو نہیں پڑھایا لکھایا۔ مگر خداوندِ قدّوس نے آپ کو اِس قدر علم عطا فرمایا کہ آپ کا سینہ اوّلین و آخرین کے علوم ومعارف کا خزینہ بن گیا اور آپ پر ایسی کتاب نازل ہوئی جس کی شان تِبْیٙاناٙٙ لِکُلِّ شٙئِِ (ہر چیز کا روشن بیان) ہے علامہ عبد الرحمٰن جامی قدس السرہُ السامی (متوفٰی 898ھ) نے کیا خوب فرمایا ہے۔

نگارِ من کہ بہ مکتب نرفت وخط ننوشت
بغمزۂ سبق آموزِ صد مدرّس شد

یعنی میرے محبوب حضور ﷺ نہ کبھی مکتب گئے، نہ لکھنا سیکھا مگر اپنے چشم وابرو کے اشارے سے سینکڑوں مدرّسوں کو سبق پڑھادیا۔

ظاہر ہے کہ جس کا استاد اور تعلیم دینے والا خلّاقِ عالم جلّ مجدہ الکریم ہو بھلا اس کو کسی اور اُستاد سے تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہوگی؟

اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا کہ

ایسا اُمّی کس لیے منت کشِ اُستاد ہو؟
کیا کفایت اس کو اِقْرٙأ وٙرٙبُّکٙ الْاکْرٙم نہیں

آپ کے اُمّی لقب ہونے کا حقیقی راز کیا ہے؟ اس کو تو اللہ تعالیٰ جل وعلا کے سوا اور کون بتا سکتا ہے؟ لیکن بظاہر اس میں چند حکمتیں اور فوائد معلوم ہوتے ہیں۔

اوّل: یہ کہ تمام دُنیا کو علم وحکمت سکھانے والے حضورﷺ ہوں اور آپ کا اُستاد صرف خداوند عالم ہی ہو۔ کوئی انسان آپ کا استاد نہ ہو، تاکہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پیغمبر تو میرا پڑھایا ہوا شاگرد ہے۔ خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اَلرَّحْمٰنُۙ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (الرحمٰن: ۱-۲)

ترجمۂ کنزالایمان: رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔

شانِ نزول: یہ ہے کہ اہل ِمکہ نے جب کہا کہ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بشر سکھاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رحمٰن نے قرآن اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سکھایا۔

سورہِ رحمٰن کی آیت نمبر1 اور 2 سے حاصل ہونے والی معلومات:

اِس معنی کے اعتبار سے ان آیات سے 5 باتیں معلوم ہوئیں:

(1)…قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اسی لئے سب سے پہلے اس کا ذکر فرمایا۔

(2)… حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن پاک بظاہر حضرت جبریل علیہ السلام کے واسطے سے آیا لیکن در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھایا۔

(3)… مخلوق میں سے حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی استاد نہیں بلکہ آپ کا علم مخلوق کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے۔

(4)… حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآنِ پاک کے مُتَشابہات کا علم بھی دیا گیا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے سارا قرآن اپنے حبیب صَلَّی اللہ علیہ وسلم کو سکھا دیا تو اس میں متشابہات کا علم بھی آگیا کہ یہ بھی قرآنِ پاک کا حصہ ہی ہیں۔

(5)…اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اَشیاء کے نام سکھائے، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (بقرہ:۳۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کو زِرہ بنانا سکھائی ،چنانچہ ارشاد فرمایا:

وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ (انبیاء:۸۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہارے فائدے کیلئے اسے (جنگی) لباس کی صنعت سکھا دی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی زبان سکھائی ،جیسا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ (نمل:۱۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو طب، تورات اور انجیل کا علم عطا فرمایا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ (اٰل عمران:۴۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔

حضرت خضر علیہ السلام کو علمِ لدُنی عطا فرمایا، چنانچہ ارشاد فرمایا:

وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا (کہف:۶۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا۔

اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جو کچھ سکھایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ

اَلرَّحْمٰنُۙ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ

ترجمۂ کنزُالعِرفان: رحمٰن نے، قرآن سکھایا۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ (نمل:۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے محبوب!) بیشک آپ کو حکمت والے، علم والے کی طرف سے قرآن سکھایا جاتا ہے۔

اور ایک جگہ واضح طور پر فرمادیا کہ

وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ (النساء:۱۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے۔

اس سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صلی اللہ علیہ وسلم کاعلم تمام اَنبیاء ِکرام علیہم السلام بلکہ تمام مخلوق سے زیادہ ہے۔

دوم: یہ کہ کوئی شخص کبھی یہ خیال نہ کر سکے کہ فُلاں آدمی حضور ﷺ کا اُستاد تھا تو شاید وہ حضور ﷺ سے زیادہ علم والا ہوگا۔

سوم: حضور ﷺ کے بارے میں کوئی یہ وہم بھی نہ کر سکے کہ حضور ﷺ چونکہ پڑھے لکھے آدمی تھے اس لیے اُنہوں نے خود ہی قرآن کی آیتوں کو اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے اور قرآن انھیں کا بنایا ہوا کلام ہے۔

چہارم: جب حضور ﷺ ساری دُنیا کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ پہلی اور پُرانی کتابوں کو دیکھ دیکھ اس قسم کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات دُنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

پنجم: اگر حضور ﷺ کا کوئی اُستاد ہوتا تو آپ کو اُس کی تعظیم کرنی پڑتی۔ حالانکہ حضور ﷺ کو خالق ارض وسما نے اس لیے پیدا فرمایا تھا کہ سارا عالٙم آپ کی تعظیم کرے۔ اس لیے حضرت حق تعالیٰ نے اس کو گوارہ نہیں فرمایا کہ میرا محبوب کسی کے آ گے زانوئے تلمّذ تہ کرے اور کوئی اس کا اُستاد ہو۔ (سیرتِ مصطفٰے ﷺ ص:60)

اور یہی وجہ کہ حضور ﷺ کی نمازِ جنازہ کسی نے نہ پڑھائی کیونکہ جنازہ پڑھانے والا میت سے افضل ہوتا ہے اور چونکہ حضور ﷺ سے افضل کوئی نہیں اسی لیے لوگ جوق در جوق حضور ﷺ کی جنازہ مبارک پر صلوٰة وسلام پیش کرتے اور چلے جاتے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں