عنوان: | قرآن کریم کی روشنی میں عورت کی حیا: فطری وقار اور روحانی حسن |
---|---|
تحریر: | محمد ریحان عطاری مدنی مرادآبادی |
اللہ تعالیٰ نے عورت کو حسن، لطافت اور پاکیزگی کا پیکر بنایا ہے۔ اس حسن کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے، اسلام نے عورت کو "حیا" جیسے عظیم وصف سے مزین کیا، جو نہ صرف اس کا فطری زیور ہے بلکہ روحانی بلند مقام کی علامت بھی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الحياءُ شُعبةٌ من الإيمانِ (صحیح البخاری، حدیث: 9)
ترجمہ: حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔
اسلام میں حیا کو عورت کے کردار کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ صفت ہے جو عورت کو بے راہ روی، فحاشی، اور شیطانی وساوس سے بچاتی ہے۔ جیسے جیسے حیا میں اضافہ ہوتا ہے، ویسے ویسے ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
حیا: عورت کی فطری خلقت کا زیور
اللہ تعالیٰ نے عورت کے دل میں فطری طور پر حیا پیدا فرمائی ہے، کیونکہ وہ اپنی ساخت میں حسین اور کشش رکھتی ہے۔ تاکہ اس کی حفاظت ہو، ربّ کریم نے اسے فطرتاً حیا کا لباس عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے کئی مقامات پر عورت کی حیا کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
قرآن میں حیا دار خواتین کے نمونے
1. حضرت مریم بنتِ عمران – پاکیزگی کی عظیم مثال
حضرت مریم جب اللہ کے حکم سے حاملہ ہوئیں اور حضرت جبرائیل علیہ السلام ان کے پاس آئے تو انہوں نے شدید حیرت، شرم اور تعجب سے کہا:
قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا (سورۃ مریم، آیت 20)
ترجمہ: انہوں نے کہا: بھلا میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا، جب کہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں، اور نہ ہی میں بدکار ہوں!
یہ جملہ حضرت مریم کے شدید حیا، پاکیزگی اور ایمان کی گواہی ہے۔ جب وہ بچے کو لے کر اپنی قوم کے پاس آئیں تو لوگوں نے اعتراض کیا، تب اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گہوارے میں بولنے کی قدرت عطا فرمائی:
فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا (سورۃ مریم، آیات 27–30)
ترجمہ؛ پھر وہ اُسے (بچہ) اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے: اے مریم! تُو نے تو ایک عجیب بات کر ڈالی ہے۔ اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں کوئی بدکار عورت تھی۔ پس مریم نے اس (بچے) کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے: ہم اس سے کیسے بات کریں جو ابھی گہوارے میں بچہ ہے؟ اس نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔
حضرت مریم رضی اللہ عنہا کا طرزِ عمل نہایت باوقار، باحیا اور ایمان افروز تھا، جس سے آج کی عورت کو حیا کا سبق سیکھنا چاہیے۔
2. حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی – چلنے کا انداز بھی حیا کا مظہر
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مدین کے کنویں پر پہنچے تو دو عورتیں پانی بھرنے کے لیے رُکی ہوئی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی مدد کی، بعد ازاں ان میں سے ایک بیٹی ان کے پاس واپس آئی:
فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا (سورۃ القصص، آیت 25)
پھر ان دونوں (عورتوں) میں سے ایک، شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور کہا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ کو اس خدمت کا بدلہ دیں جو آپ نے ہمارے لیے پانی نکال کر کی۔
یہاں لفظ "عَلَى اسْتِحْيَاءٍ" (حیا کے ساتھ) نہایت اہم ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس کی چال، نگاہ، اندازِ گفتار سب میں حیا نمایاں تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
جاءتْ تمشي على استحياءٍ، قائلةً بثوبِها على وجهِها، ليستْ بسلفعٍ خراجةٌ ولاجةٌ (تفسیر الطبری، آیت القصص: 25)
ترجمہ: وہ چادر سے چہرہ ڈھانپے ہوئے آئی، کوئی بے باک، باہر گھومنے والی عورت نہ تھی۔
یہ واقعہ عورت کے لیے مثالی ہے کہ وہ کہاں، کیسے اور کس انداز سے بات کرے۔
3.اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعد از وفات بھی حیا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كنتُ أدخُلُ بيتي الذي دُفِنَ فيه رسولُ اللهِ ﷺ وأبي، فأضعُ ثوبي، وأقولُ: إنَّما هو زوجي وأبي، فلمَّا دُفِنَ عمرُ معهم، فواللهِ ما دخلتُهُ إلَّا وأنا مشدودةٌ عليَّ ثيابي؛ حياءً مِن عمر (مسند أحمد، حدیث: 26177)
ترجمہ؛ میں اپنے گھر میں (آزادی سے) داخل ہوتی تھی جس میں رسول اللہ ﷺ اور میرے والد مدفون تھے، اور اپنے کپڑے ڈھیلے رکھتی، لیکن جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وہاں دفن کیے گئے، تو اللہ کی قسم! میں مکمل پردے کے ساتھ داخل ہونے لگی، عمر سے حیاء کی وجہ سے۔
یہ وہ حیا ہے جو مرنے والوں سے بھی باقی رہتی ہے۔ یہ ادب، ایمان اور وقار کی معراج ہے۔
حیا کی اہمیت: اخلاقی و روحانی پہلو
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أكملُ المؤمنين إيمانًا أحسنُهم خُلُقًا (جامع الترمذی، حدیث: 1162)
ترجمہ: ایمان کے اعتبار سے سب سے مکمل مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔
اور ایک اور جگہ فرمایا:
إذا لم تستحِ فاصنعْ ما شِئتَ (صحیح البخاری، حدیث: 3483)
ترجمہ: جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو۔
گویا حیا ایک اندرونی نگرانی ہے جو انسان کو ہر برائی سے پہلے روک لیتی ہے۔
عورت کا اصل حسن
اسلام میں عورت کا حسن اس کے چہرے میں نہیں بلکہ اس کے کردار، حیا، اور گفتار میں ہے۔ وہ جب نگاہیں نیچی رکھتی ہے، سادہ اور باوقار لباس پہنتی ہے، نرم انداز میں ضرورت کی بات کرتی ہے، تو وہ سماج میں عزت اور احترام پاتی ہے۔
آج کے دور میں جب فحاشی، بے حیائی اور عریانی کو آزادی کا نام دیا جا رہا ہے، ایسے میں قرآنِ کریم کی ان خواتین کی مثالیں ہمیں حیا، عفت اور کردار کی روشنی دکھاتی ہیں۔ اگر مسلمان عورت ان نمونوں کو اپنائے تو وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حیا کی دولت عطا فرمائے آمین یا رب العالمین