دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

سائنسدان علماء (قسط اول) جابر بن حیان (The Father of Chemistry)

سائنسدان علماء قسط اول: جابر بن حیان (The Father of Chemistry)
عنوان: سائنسدان علماء قسط اول: جابر بن حیان (The Father of Chemistry)
تحریر: محمد ریحان عطاری مدنی مرادآبادی
پیش کش: دار النعیم آن لائن اکیڈمی، مرادآباد

مغرب جس دور کو Dark Age یعنی "اندھیروں کا دور" کہتا ہے، اس عہدِ ظلمت میں یقیناً یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، لیکن عرب و اسلامی دنیا علم و عرفان کی بلندیوں پر جگمگا رہی تھی۔ چھٹی صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی تک مسلم دنیا نے علم و حکمت کے ہر میدان میں شاندار ترقی کی۔ یہی وہ دور تھا جب مسلم دنیا کے نامور سائنسدانوں نے علم کو محض دینی عقائد کی روشنی میں ہی نہیں، بلکہ تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر بھی فروغ دیا۔ انہی میں ایک عظیم شخصیت جابر بن حیان کی ہے، جنہیں "علمِ کیمیا" (کیمسٹری) کا بانی کہا جاتا ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

جابر بن حیان کی ولادت ایران کے شہر طوس میں ہوئی۔ آپ کے والد احمد بن حیان عباسی خلافت کے ابتدائی دور میں سیاسی طور پر سرگرم تھے، لیکن بعض روایات کے مطابق حکومتِ وقت کے حکم پر قتل کر دیے گئے۔ مشکل حالات میں آپ کی پرورش کی ساری ذمہ داری والدہ کے کندھوں پر آگئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد والدہ نے آپ کو کوفہ بھیج دیا، جہاں آپ نے کیمیا اور حکمت کی تعلیم حاصل کی۔ کوفہ میں ہی آپ نے اپنے تجربات کی بنیاد رکھی اور جلد ہی ایک مستقل تجربہ گاہ قائم کر لی۔

مذہبی و فکری نسبت

جابر بن حیان کی شخصیت صرف سائنس و حکمت تک محدود نہیں، بلکہ ان کا دینی و فکری پہلو بھی اہم ہے۔ مؤرخین کے مطابق آپ کو امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا شاگرد مانا جاتا ہے۔ مشہور سائنسدان ہولیمارڈ کہتا ہے:

جابر بن حیان امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے یا دوست تھے۔ انہوں نے امام رضی اللہ عنہ کو اپنے لیے سند، مددگار رہنما، امیر، اور ایسا مرجع پایا کہ جس کی صحبت سے وہ مستغنی نہیں ہو سکتے تھے۔ جابر نے اپنے استاد کے حکم سے اسکندریہ میں رہنے والے فنِ کیمیا کے ماہرین کی کتابوں کو نقل کرنا شروع کیا اور اس میں انتہائی کامیابی حاصل کی، اس لیے ضروری ہے کہ ان کا نام اس فنِ کیمیا کے بزرگ ماہرین کے ساتھ لیا جائے۔ [الامام الصادق ملھم الکیمیاء، ص: ۳۷]

اسی طرح شمس الدین احمد بن ابی بکر بن خلکان (متوفی ۶۸۱ ہجری) امام صادق رضی اللہ عنہ کے حالات تحریر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے ابوموسیٰ جابر بن حیان الصوفی الطرسوسی ہیں، جنہوں نے ایک ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لکھی، جس میں امام صادق رضی اللہ عنہ کے رسائل ہیں، ان کی تعداد پانچ سو ہے۔ [وفیات الاعیان]

البتہ، واضح طور پر یہ کہنا کہ وہ حنفی یا شافعی تھے، درست نہیں، کیونکہ اس زمانے میں فقہی مذاہب کی تدوین کا عمل اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جابر بن حیان کو براہِ راست کسی ایک فقہی مذہب کے ساتھ منسوب کرنے کے بجائے انہیں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے علمی فیض یافتہ اور اسلامی سائنس کے عظیم ستون کے طور پر دیکھا جائے۔

کیمیا میں خدمات

جابر بن حیان نے کیمیا کی بنیاد اس نظریے پر رکھی کہ تمام دھاتیں گوگرد اور پارے کے مختلف امتزاجات سے وجود میں آتی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کیمیائی عمل کے ذریعے دھاتوں کو سونے میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک آلہ ایجاد کیا، جسے "کَرّام بیق" کہا جاتا ہے۔ یہی آلہ بعد میں Alembic کے نام سے معروف ہوا اور جدید کیمیا میں آج بھی Distillation Apparatus کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

ایک تجربے کے دوران انہوں نے نائٹرک ایسڈ (Nitric Acid) دریافت کیا، جسے انہوں نے "تیزاب" کا نام دیا۔ بعد میں انہوں نے ایک ایسا تیزاب بھی تیار کیا جو سونے کو گھلا سکتا تھا، یہ "آبِ زر" (Aqua Regia) تھا۔ یہ ایجادات کیمیا کے میدان میں ان کی غیر معمولی بصیرت کی دلیل ہیں۔

دیگر ایجادات

  • Sublimation (تسعید): انہوں نے تسعید کا طریقہ ایجاد کیا، جس سے ادویات کو زیادہ مؤثر بنایا جا سکا۔
  • Crystallization (بلور سازی): انہوں نے بلور سازی کا طریقہ متعارف کرایا۔
  • Oxidation (آکسیڈیشن): انہوں نے آکسیڈیشن کے اصول دریافت کیے اور بتایا کہ دھات کا وزن آکسیڈیشن کے بعد بڑھ جاتا ہے۔
  • فولاد سازی اور زنگ سے تحفظ: انہوں نے فولاد بنانے اور لوہے کو زنگ سے محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
  • کپڑے پر موم چڑھانا (Waterproofing): انہوں نے کپڑے پر موم چڑھانے کا طریقہ اور خضاب کا نسخہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔
  • نوشادر (Ammonium Chloride): انہوں نے نوشادر دریافت کیا۔

فلسفہ و طب میں دلچسپی

جابر بن حیان صرف کیمیا تک محدود نہیں تھے، بلکہ طب، فلسفہ، منطق، اور فلکیات میں بھی گہری دسترس رکھتے تھے۔ آپ نے ہندوستانی اور یونانی ماخذات سے استفادہ کیا اور "کتاب المجرّدات"، "کتاب الرحمة"، اور "کتاب الملک" جیسی اہم کتب تصنیف کیں۔

کتب و تصانیف

مؤرخین کے مطابق جابر بن حیان نے کیمیا اور دیگر موضوعات پر دو سو سے زیادہ کتب تحریر کیں۔ ان کی مشہور کتب میں شامل ہیں:

  • کتاب الکیمیاء (Kitab al-Kimya)
  • کتاب الزرع
  • الخمائر الصغیر
  • کتاب المیزان

ان کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا، جس نے یورپ میں سائنس کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کی راہ ہموار کی۔ Alembic، Antimony، Alkali، Realgar، Tuttya جیسے کئی الفاظ یورپی زبانوں میں جابر کی تحریروں سے Adele سے پہنچے۔

جابر بن حیان اور یورپ پر اثرات

یورپی مؤرخین جیسے سر ایڈورڈ تھورندائک اور جورج سارتون نے جابر بن حیان کو "Father of Chemistry" (کیمسٹری کا باپ) قرار دیا۔ ان کے نظریات قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل رہے۔

وفات

یہ عظیم سائنسدان ۸۱۵ء میں تقریباً ۹۴ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ ان کا مزار دمشق میں واقع ہے۔

الحاصل جابر بن حیان کی شخصیت مسلم سائنس کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے محض نظری باتوں پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ عملی تجربات کے ذریعے دنیا کو یہ سکھایا کہ علم مشاہدہ اور تجربہ کے بغیر ادھورا ہے۔ ان کی خدمات کیمیا ہی نہیں، بلکہ طب، فلسفہ، اور فلکیات کے میدانوں میں بھی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ آج بھی کیمسٹری کی تاریخ کا ہر باب جابر بن حیان کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ (جاری)

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔