عنوان: | غوثِ پاک رضی اللہ عنہ: نورِ ہدایت، مایۂ کرامت |
---|---|
تحریر: | محمد ظفر اللہ ضیاء رضوی، اتر دیناج پور، بنگال |
پیش کش: | بزم ضیاے سخن، اتر دیناج پور، بنگال |
معزز حضرات، اہلِ علم و محبت، اور عزیز قارئین!
آج مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی ہے کہ میں آپ کے سامنے اسلام کے عظیم ولی، حضرت سیدنا محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فضائل، کرامات، اور فیضان ولایت کے بارے میں چند حقائق پیش کر سکوں۔ یہ ایسا موضوع ہے جو دل و دماغ دونوں کے لیے روشنی کا باعث ہے، کیوں کہ ولایت ایک ایسا نور ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں رہ نمائی عطا کرتا ہے۔
ولی اللہ کی ضرورت اور مقام
انسان کی زندگی میں علم، حکمت، اور روحانیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ دنیاوی تعلیم انسان کو معاشرتی ترقی دیتی ہے، مگر روحانی تعلیم انسان کو دل کی روشنی، اطمینان اور اللہ کی قربت عطا کرتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسے نورانی شخصیات بھی بھیجتا ہے جو انسانیت کے لیے مشعلِ راہ بنیں، جن کی ذات سے فیض پانے والا بندہ اللہ کی معرفت اور محبت میں مستغرق ہو جائے۔ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ انہی عظیم روحانی شخصیات میں سے اور اللہ کا بہت بڑا ولی ہیں۔
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ [سورۂ یونس، آیت: 62-63]
ترجمہ کنز الایمان: سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں۔
یہ آیات ولی اللہ کی دو نمایاں صفتوں کا تذکرہ کرتی ہیں: ایمان اور تقویٰ۔ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی حیاتِ طیبہ انہی دونوں کا کامل امتزاج تھی۔ آپ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حقیقی علم وہ ہے جو دل و دماغ کے ساتھ عمل میں بھی نظر آئے، اور حقیقی زہد وہ ہے جو دنیا کی محبت کو دل سے دور کر دے۔
ولادت اور ابتدائی زندگی
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ولادت بغداد میں ہوئی۔ بچپن ہی سے آپ میں زہد و تقویٰ کے آثار نمایاں تھے۔ آپ کا بچپن ایسی روشنی میں گزرا جس نے اہلِ گھر و محلہ کے دلوں کو حیرت میں ڈال دیا۔
ابتدائی تعلیم کے دوران آپ نے قرآن و حدیث، فقہ و اصول، اور دیگر دینی علوم میں مہارت حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت اور قلبی ریاضت کا آغاز بھی ہوا۔ بچپن ہی میں آپ میں عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک نمایاں تھی، اور یہی محبت آپ کی زندگی کا محور بنی۔
روحانی سفر اور صوفیانہ تربیت
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی جوانی کلی طور پر تعلیم و تربیت میں گزاری۔ آپ نے نہ صرف ظاہری علوم میں مہارت حاصل کی بلکہ قلبی پاکیزگی اور معرفتِ حق میں بھی بلند مرتبہ حاصل کیا۔
آپ کی ریاضتیں اور عبادات اتنی شدید تھیں کہ آپ کی ذات کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کی روشنی سے منور کیا گیا۔ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی یاد میں گزرتا، اور ہر عمل میں روحانی فیض شامل ہوتا۔
علمی و تربیتی خدمات
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی خانقاہ بغداد میں ایک مرکزِ علمی و روحانی حیثیت رکھتی تھی اور رکھتی ہے۔ آپ نہ صرف علم و حکمت کا درس دیتے بل کہ مریدوں کی تربیت اور دلوں کی اصلاح بھی فرماتے۔ آپ کے وعظ و نصائح دلوں کو جھنجھوڑ کر بندگانِ خدا کو اللہ کی طرف لے جاتے۔
آپ کی شخصیت میں علم اور عرفان کا امتزاج تھا۔ جو بھی آپ کی صحبت میں آیا، وہ نہ صرف دینی و دنیاوی علم حاصل کرتا بل کہ روحانی فیوض سے بھی مالامال ہوتا۔
قادری ہیں ہم سبھی، ہم میں ہے الفت تری
ہم غلاموں کو ہے کافی یہی نسبت تری
(ظفر ضیا)
یہ اشعار آپ کے فیضِ عام کی جھلک ہیں۔ جو شخص آپ سے وابستگی اختیار کرتا، وہ غوثی نسبت کے نور سے منور ہو جاتا۔
کرامات و فیوض
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی کرامات کی مثالیں بے شمار ہیں۔ آپ ایک پکار سننے والے ہیں، ایک آن میں مصیبت کو دور کرنے والے۔ مردہ آپ کے اذن سے زندہ ہوا، بیمار آپ کے کرم سے شفا پا گئے۔
قم باذنی سنتے ہی جو ہوا مردہ کھڑا
کس قدر حیران کن ہے شہا قدرت تری
(ظفر ضیا)
یہ کرامات صرف خارق العادات نہیں، بل کہ ولایت کی دنیا میں آپ کی قبض و بسط کی شہادت ہیں۔ آپ کی دعا، ذکر اور فیض میں شامل ہر عمل مریدوں اور عام لوگوں کے لیے برکت کا باعث تھا۔
آپ کی کرامتیں نہ صرف اسلام کے عاشقان کے لیے ایمان افزا تھیں، بل کہ وہ روحانی رہ نمائی بھی فراہم کرتی تھیں جو انسان کو اللہ کے قریب لے جاتی تھیں۔
ولایت اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی زندگی عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال تھی۔ آپ کی ہر حرکت اور ہر قول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا عکس تھا۔ یہ محبت آپ کے مریدوں کے لیے مشعلِ راہ بنی اور ان کی زندگیوں میں روحانی روشنی بکھیرتی رہی۔
آپ نے نہ صرف الفاظ میں بل کہ عمل سے بھی عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم دی۔ آپ کی ذات ایک ایسا آئینہ تھی جس میں رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل تصویر جھلکتی تھی۔
روضہ اور عقیدت
آپ کا روضہ بغداد میں اہلِ محبت کے لیے مرکزِ عقیدت ہے۔ وہ نورانی جالیاں دلوں کو سکون بخشتی ہیں اور اہلِ ایمان کی آنکھوں کو قرار دیتی ہیں۔ زیارت کے لیے آنے والے عاشقان کے دلوں میں روحانی فیض اور سکون کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔
کس قدر دل کش درِ نور کی وہ جالیاں
ہاں بلانا دیکھنا ہے ہمیں تربت تری
(ظفر ضیا)
یہ منظر نہ صرف ظاہری حسن کا حامل ہے بل کہ روحانی دنیا کی روشنی بھی فراہم کرتا ہے۔
علمی و ادبی پہلو
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نہ صرف ایک ولی ہیں بل کہ ایک عالم، مربی، اور خطیب بھی ہیں۔ آپ کی خطابت میں ایسی تاثیر ہے کہ سامعین و قارئین کے دل نہ صرف موم بن جاتے بل کہ ان کی روحیں بھی اللہ کی محبت سے معمور ہو جاتی ہیں۔ آپ کے اشعار اور اقتباسات آج بھی مریدوں کے دلوں میں زندگی بخشتے ہیں۔
تعلیمات کا اثر اور موجودہ دور
آج کے زمانے میں بھی حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی تعلیمات انسانیت اور روحانیت کے لیے رہ نمائی فراہم کرتی ہیں۔ آپ کی حیاتِ طیبہ یہ سبق دیتی ہے کہ علم، زہد، اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم انسان کی زندگی کو کامل بنا سکتے ہیں۔
آپ کی تعلیمات ہمیں صبر، تقویٰ، خدمتِ خلق، اور اللہ کی معرفت میں ترقی کے راستے دکھاتی ہیں۔
بالآخر حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی زندگی ایک ایسا نورانی باب ہے جس میں عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، ولایت، اور کرامات کی روشنی بہتی ہے۔ آپ کی خانقاہ، وعظ، اور کرامات آج بھی دلوں میں ایمان و معرفت کی روشنی پھینکتی ہیں۔
آپ کی ذات ایک ایسا باغ ہے جس کے ہر پھول سے خوشبوئے ولایت اٹھتی ہے، ایک ایسا دریا ہے جس کی ہر موج سے معرفت کے موتی برآمد ہوتے ہیں، اور ایک ایسی کہکشاں ہے جس کے ہر ستارے سے عشق و معرفت کی روشنی پھوٹتی ہے۔
ہم سب کے لیے یہی پیغام ہے کہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی تعلیمات اور مریدی نسبت کو اپنائیں، اور اپنی زندگی کو علم و معرفت، زہد و تقویٰ، اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی سے منور کریں۔
قادری ہیں ہم سبھی، ہم میں ہے الفت تری
ہم غلاموں کو ہے کافی یہی نسبت تری
(ظفر ضیا)