عنوان: | محدثین کے قول: لا يصحّ (یہ حدیث صحیح نہیں) کا صحیح معنی و مفہوم |
---|---|
تحریر: | عمران رضا عطاری مدنی بنارسی |
غیر مقلدین اور بد مذہب، لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ محدثین کرام کا قول: لا يصحّ هذا الحديث (یعنی یہ حدیث صحیح نہیں۔) کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث موضوع و باطل اور من گھڑت ہے۔ حالاں کہ فنِّ حدیث کے لحاظ سے یہ بات بالکل غلط ہے، جس کا کوئی سر پیر نہیں۔
اسے قدرے تفصیل سے یوں سمجھیں:
حدیث کے مختلف مراتب ہیں جن میں سب سے بلند مرتبہ صحیح حدیث کا ہے جس پر گفتگو آگے آرہی ہے۔
حدیث کے مراتب
امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آٹھ مراتب بیان فرمائے ہیں:
- صحیح لذاتہ
- صحیح لغیرہ
- حسن لذاتہ
- حسن لغیرہ
- ضعیف بضعفِ قریب
- ضعیف بضعفِ قوی و وہم شدید
- مطروح
- ان سب کے بعد موضوع
حدیث صحیح کی تعریف
حدیث صحیح کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
علامہ علی بن محمد بن علی الزین الشریف الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ (ت ٨١٦هـ) فرماتے ہیں:
هو ما اتصل سنده بنقل العدل الضابط عن مثله وسلم عن شذوذ وعلة۔ [المختصر في أصول الحديث، ص:68، مكتبة الرشد – الرياض]
ترجمہ: حدیث صحیح وہ ہے جس کی سند متصل ہو، عادل و ضابط راوی نے اپنی مثل عادل و ضابط سے نقل کیا ہو، اور شذوذ و علت سے محفوظ ہو۔
غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حدیث کے صحیح ہونے کے لیے مذکورہ تعریف میں پانچ شرائط بیان کیے گئے ہیں:
- اتصال
- عدالت
- ضبط
- عدم شذوذ
- عدم علت
مذکورہ شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی فوت ہو تو حدیث صحیح نہیں ہوگی۔
بلکہ حدیث کے جو دیگر مراتب ہیں حسب حال ان میں سے ہوگی۔ صحیح لغیرہ بھی ہو سکتی ہے، حسن بھی ہو سکتی، اگر ان میں سے کچھ نہ ہو تو ضعیف ہوگی۔ مگر یہ کہنا کہ صحیح نہیں تو نتیجہ یہ نکلا کہ غلط ہے، یہ سراسر ظلم اور اصول حدیث سے ناآشنائی کی دلیل ہے۔
محدثین عظام نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ حدیث صحیح نہیں کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حدیث من گھڑت ہے بلکہ وہ حسن یا ضعیف بھی ہو سکتی ہے۔
علامہ ابو الحسنات عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ الرفع والتكميل میں فرماتے ہیں:
كثيرا ما يقولون لا يصح ولا يثبت هذا الحديث ويظن منه من لا علم له أنه موضوع أو ضعيف وهو مبني على جهلة بمصطلحاتهم وعدم وقوفه على مصرحاتهم۔ [الرفع والتكميل في الجرح والتعديل، ص:191، دار البشائر الإسلامية]
ترجمہ: کثیر مقامات پر محدثین لا يصح (یہ حدیث صحیح نہیں) ولا يثبت هذا الحديث (یہ حدیث ثابت نہیں) فرماتے ہیں تو جسے اصول حدیث سے آشنائی نہیں، اور جو ان کی اصطلاحات و تصریحات سے جاہل ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ حدیث موضوع یا ضعیف ہے۔
محدثین کے قول: لا يصحّ کا صحیح معنی و مفہوم
ائمہ کرام کی عبارات
• امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (ت۸۵۲ ھ) لکھتے ہیں:
امام بخاری نے ایک حدیث ذکر کرکے فرمایا: وقال لم يصحّ انتهى ولا يلزم من كون الحديث لم يصحّ أن يكون موضوعا۔ [القول المسدد في الذب عن مسند أحمد، ص:34، مكتبة ابن تيمية – القاهرة]
یہ حدیث صحیح نہیں۔ لیکن حدیث صحیح نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حدیث موضوع ہے۔
• ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لا يصحّ لا ينافي الضعف والحسن۔ [الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة، ص:349، مؤسسة الرسالة – بيروت]
لا يصحّ کہنا ضعف یا حسن کے منافی نہیں۔
• امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ (ت۷۹۴هـ) فرماتے ہیں:
بين قولنا لم يصحّ وقولنا موضوع بون واضح فإن الوضع إثبات الكذب وقولنا لم يصحّ إنما هو إخبار عن عدم الثبوت ولا يلزم منه إثبات العدم۔ [المصنوع في معرفة الحديث الموضوع، ص:44، مؤسسة الرسالة – بيروت]
ہمارا لم يصحّ کہنے اور موضوع کہنے میں واضح فرق ہے، وضع کا مطلب جھوٹ کو ثابت کرنا، جب کہ لم يصحّ کا معنی ثبوت نہ ہونے کی خبر دینا ہے، اس سے عدم کا ثبوت نہیں ہوتا۔
امام اہل سنت مجدد دین و ملت شاہ امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
محدثین کرام کا کسی حدیث کو فرمانا کہ ” صحیح نہیں “ اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ غلط و باطل ہے، بلکہ صحیح اُن کی اصطلاح میں ایک اعلیٰ درجہ کی حدیث ہے، جس کے شرائط سخت و دشوار اور موانع و عوائق کثیر و بسیار، حدیث میں اُن سب کا اجتماع اور اُن سب کا ارتفاع کم ہوتا ہے، پھر اس کمی کے ساتھ اس کے اثبات میں سخت دقتیں، اگر اس مبحث کی تفصیل کی جائے، کلام طویل تحریر میں آئے، اُن کے نزدیک جہاں ان باتوں میں کہیں بھی کمی ہوئی، فرما دیتے ہیں: ” یہ حدیث صحیح نہیں “ یعنی اس درجہ علیا کو نہ پہنچی۔ [رسائل رضویہ، رسالہ: منیر العین، ج:10، ص:35، امام احمد رضا اکیڈمی]
معلوم ہوا کہ کسی حدیث سے صحت کی نفی سے محدثین کے نزدیک مخصوص شرائط کا نہ پایا جانا ہے۔ یہ معنی نہیں ہے کہ وہ باطل محض ہے۔
اسی طرح محدثین نے کئی احادیث کے متعلق لا يصحّ یا لا يثبت فرمایا تو عقل کے اندھوں نے سمجھا یہ حدیث اصلاً باطل ہے، اور ان عبارتوں کو دلیل بناکر اہل سنت و جماعت پر اعتراض بازی شروع کردی۔ جیسے حديث: توسّع علي العيال يوم عاشوراء کے متعلق علما نے فرمایا: صحیح نہیں، تو انھوں نے اسے باطل قرار دیا، حالاں کہ بعض اوقات حدیث صحیح اگرچہ نہیں ہوتی مگر حسن ہوتی ہے جو کہ قابل استدلال ہے۔
اسی طرح حديث: من طاف بهذا البيت أسبوعا کے متعلق امام سخاوی نے لا يصحّ فرمایا، تو عقل سے پیدل جہلا نے اس حدیث کو ہی رد کردیا، حالاں کہ وہ حسن یا ضعیف بھی ہو سکتی ہے۔
اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن پر لا يصحّ کا اطلاق ہوا اور غیر مقلدین نے اس کا غلط استعمال کیا۔
ایک مثال کے ذریعے بات بڑی آسانی سے سمجھ آ جائے گی۔ مثلاً: چار اشخاص ہیں:
- مفتی: جن کو خصوصی طور پر فقہی مسائل میں مہارت حاصل ہے۔
- عالم: جو شریعت کے مسائل جاننے والے ہیں۔
- حافظ: جن کو قرآن پاک حفظ ہے۔
- قاری: جن کو تجوید پر عبور حاصل ہے۔
- جاہل: جس گنوار شخص کو دین کی کچھ معلومات نہیں۔
اب اگر میں یہ کہوں کہ زید مفتی نہیں تو اس کا یہ مطلب سمجھنا کہ زید جاہل ہے یہ خود سمجھنے والے کی جہالت ہے، کیوں کہ مفتی اور جاہل کے درمیان بہت سارے مراتب ہیں، ہو سکتا ہے زید عالم ہو یا حافظ و قاری ہو۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یہ بات خوب یاد رکھنے کی ہے کہ صحت حدیث سے انکار نفی حسن میں بھی نص نہیں، جس سے قابلیت احتجاج منتفی ہو، نہ کہ صالح ولائق اعتبار نہ ہونا، نہ کہ محض باطل و موضوع ٹھہرنا، جس کی طرف کسی جاہل کا بھی ذہن نہ جائے گا کہ صحیح و موضوع دونوں ابتدا و انتہا کے کناروں پر واقع ہیں، سب سے اعلیٰ صحیح اور سب سے بدتر موضوع، اور وسط میں بہت اقسام حدیث ہیں درجہ بدرجہ۔ [رسائل رضویہ، رسالہ: منیر العین، ج:10، ص:39، امام احمد رضا اکیڈمی]
مزید تفصیل کے لیے فتاوی رضویہ، رسالہ: منیر العین کا مطالعہ فرمائیں!
اللہ پاک ایسوں کے شر سے مسلمانوں کو حفظ و امان عطا فرمائے۔ آمین۔