عنوان: | نوجوان اور تعمیرِ ملت |
---|---|
تحریر: | محمد سجاد علی قادری ادریسی |
پیش کش: | بزم ضیاے سخن، اتر دیناج پور، بنگال |
خالقِ کائنات رب دو جہاں نے انسان کو مختلف عناصر کے حسین امتزاج سے پیدا فرمایا اور کئی مرحلوں سے گزار کر ایک بہترین معاشرے کو وجود بخشا۔ ہمارے شعبہائے حیات یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپا سب میں اس مالک حقیقی کی بے شمار حکمتیں پنہاں ہیں۔
مگر ان سب میں جوانی اللہ تبارک وتعالٰی کی عطا کی ہوئی وہ نایاب نعمت ہے جس سے معاشرہ، ملک، ملت اور قوم کے ہر شعبے کے عروج و زوال کا گہرا تعلق ہے۔
جس قوم و ملت کے نوجوان صحیح راستے پر گام زن ہوں وہ قوم ترقی کی راہوں کو ہموار کرتے ہوئے اوج فلک تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔
درحقیقت، نوجوانی کا دور وہ سنہرا زمانہ ہوتا ہے جب انسان کے ارادے پختہ، جذبات بلند، عقل روشن، اور توانائیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک، قوم، اور مذہب کی نگاہوں کا مرکز نوجوان طبقہ ہوتا ہے، کیوں کہ قوموں کی تعمیر و ترقی انہی کے دم قدم سے ممکن ہے۔
خالقِ کائنات نے جب انسان کی خلقت کا تذکرہ فرمایا تو دیگر مراحل کے ساتھ دورِ جوانی کا خاص ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْۚ۔ [الحج: 5]
ترجمہ کنزالایمان: تمہیں نکالتے ہیں بچہ، پھر اس لیے کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو (اور تمہاری عقل و قوت کامل ہو)۔ [تفسیر خزائن العرفان]
اس ارشادِ ربانی سے واضح ہوتا ہے کہ جوانی محض ایک عمر نہیں بلکہ انقلابِ حیات کی قوت ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو باطل سے ٹکرانے کی ہمت اور حق کے قیام کی جرأت رکھتا ہے۔
چنانچہ جب ربِ کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جوانی کا ذکر فرمایا تو قرآنِ کریم یوں گویا ہوا:
فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ قَالُوْا مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُﭤ قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُﭤ قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْــٴَـلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ۔ [الانبیاء: 58-65]
ترجمہ کنزالایمان: تو ان سب کو چورا کردیا مگر ایک کو جو ان سب کا بڑا تھا کہ شاید وہ اس سے کچھ پوچھیں۔ بولے کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا بیشک وہ ظالم ہے۔ ان میں کے کچھ بولے ہم نے ایک جوان کو انہیں برا کہتے سنا جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ بولے تو اسے لوگوں کے سامنے لاؤ شاید وہ گواہی دیں۔ بولے کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا اے ابراہیم۔ فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا تو ان سے پوچھو اگر بولتے ہوں۔ تو اپنے جی کی طرف پلٹے اور بولے بیشک تم ہی ستمگار ہو۔ پھر اپنے سروں کے بل اوندھائے گئے کہ تمہیں خوب معلوم ہے یہ بولتے نہیں۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جوانی، غیرتِ ایمانی، اور استقامت کو نمایاں کر کے گویا تمام نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ دیکھو! جوانی اللہ تعالٰی کی کتنی بڑی نعمت ہے، جس سے دین کی عزت اور باطل کی سرکوبی ممکن ہوتی ہے۔
اسی طرح کچھ اور جواں ہمت بندگانِ خدا کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآنِ عظیم فرماتا ہے:
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًى وَّ رَبَطْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاۡ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلٰهًا لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذًا شَطَطًا۔ [الکہف: 13-14]
ترجمہ کنزالایمان: ہم ان کا ٹھیک ٹھیک حال تمہیں سنائیں وہ کچھ جوان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت بڑھائی۔ اور ہم نے ان کے دلوں کی ڈھارس بندھائی جب کھڑے ہوکر بولے کہ ہمارا رب وہ ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو نہ پوجیں گے ایسا ہو تو ہم نے ضرور حد سے گزری ہوئی بات کہی۔
سبحان اللہ، ان فرامین عالی شان پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ قرآن مجید نے جہاں ان بزرگوں کا ذکر جمیل فرمایا، وہیں ان کی جوانی، حوصلے، اور جرأت کا خصوصی ذکر فرما کر یہ درس دیا کہ جوانی خدا کی عظیم امانت ہے۔
اسی طرح تاریخ کے اوراق میں بے شمار ہستیاں جگماتی ہوئی نظر آئیں گی جنہوں نے اپنے کارناموں سے تمام عالم کو حیرت زدہ کر دیا اور ثابت فرما دیا کہ ہمارا وجود اس کائنات کے لیے کتنا ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شیاطین عالم اسی طبقے کا شکار کرتے ہیں اور اس کے لیے نت نئے حربے و ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ فلم، ڈرامہ، موبائل، انٹرنیٹ، ناول، افسانہ، عشق، دل لگی وغیرہ الگ الگ نام سے بے شمار قسم کی چیزوں سے انہیں گمراہ، تباہ اور برباد کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ جس کا وہ شکار ہو کر اپنی دنیا اور آخرت کو برباد کر رہے ہیں۔
لہٰذا اسلام نے جہاں دیگر طبقوں کو سنوارا اور کامیاب بنایا ہے وہیں نوجوان طبقہ کے سنوارنے ان کے اخلاق و کردار کو بہترین بنانے کا خاص خیال رکھا ہے۔ جن کی مثال احادیث و اقوال بزرگان دین میں کثرت سے مل جائیں گی۔ چنانچہ سنن ترمذی، باب صفۃ القیامہ میں ہے کہ قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے۔ عمر کن کاموں میں گنوائی؟ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ [سنن ترمذی، باب صفۃ القیامہ]
معزز قارئین! غور فرمائیں ان میں جوانی کے علاوہ جو سوالات ہیں ان کا بھی تعلق جوانی ہی سے ہے جیسے عمر جس میں جوانی کا دور بھی شامل ہے۔ مال کمانا اور پھر اسے خرچ کرنا بھی انسان جوانی میں ہی شروع کرتا ہے یوں ہی حصول علم کا بھی تعلق اسی عمر سے ہے جس میں انسان اپنے علم کی تشنگی کو بجھاتا ہے۔ ایک انسان کو کامیاب ہونے کے لیے یہ حدیث پاک ہی کافی ہے۔
مگر افسوس کہ منفی سوچ اور علمائے کرام سے دوری نے ہمارے نوجوانوں کو اسلام اور تعلیم اسلام سے دور کر دیا جس کا نتیجہ ہے کہ آج نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
لہٰذا آج کے پُرفتن وقت میں یہ نہایت ضروری ہے کہ علما و دانشور حضرات مل کر ایک واضح اور مؤثر لائحہ عمل مرتب کریں، اور نوجوان نسل اپنے علما و مشائخ کے قریب ہو کر اپنی خداداد صلاحیتوں کو دینی و ملی خدمات کے لیے بروئے کار لائے، تاکہ ایک صالح، بااخلاق اور مثالی معاشرہ وجود میں آسکے۔
اللہ عزوجل ہمارے نوجوانوں کو دونوں جہاں میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے، انہیں دینِ اسلام کا سچا خادم، مخلص مبلغ، اور امت کے لیے سرمایہ افتخار بنائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین وآلہ وصحبہ اجمعین۔