عنوان: | یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی |
---|---|
تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
پیش کش: | ادارہ لباب |
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
کتاب ایک آفاقی حقیقت اور قدرت کی جانب سے نایاب اور بیش بہا تحفہ ہے جس کی اہمیت، ضرورت اور افادیت تردید کی زد سے آزاد ہے۔
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قیدوا العلم بالکتابة
ترجمہ: علم کو کتابت کے ذریعے قید کرو، یعنی لکھا کرو۔
بے شک کتابیں ہی علم و حکمت کا خزانہ اور شعور و آگہی سے بھرا ہوا پیمانہ ہیں۔ کتاب انسان کے لیے ایسے ہی ضروری ہے جیسے جسم کے لیے ہوا کی ضرورت اور جس طرح سانس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے، اسی طرح بامعنی اور بامقصد زندگی گزارنے کے لیے کتابیں ناگزیر ہیں۔ کتابوں میں ہی زندگی کی بقا کا راز مضمر ہے کہ جس نے جان لیا وہی کامیاب و کامران ہوا۔
اگر ہم کتاب کی معنوی حقیقت پر غور کریں تو یہ محض کاغذ اور روشنائی کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ تخیل کی پرواز ہے، روح کی آواز ہے، حیات کی اساس ہے، کتاب روشنی کا مینار ہے، گوشۂ تنہائی میں مونس و غم خوار ہے، کتاب ہی دل کا آئینہ ہے، مستقبل کی رہنما ہے اور ذہن کی غذا ہے جو ہماری اندرونی خلا کو پر کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
بلکہ یہ کہہ لیں تو بے جا نہ ہوگا کہ کتاب ایک کائنات ہے اور اس کائنات کی سیر و تفریح سے وہی لطف اندوز ہوسکتا ہے جو کتب بینی کا دلدادہ ہو۔ کتب بینی انسان کو دنیا دیکھنے کا نیا زاویہ مہیا کرتی ہے۔ کتب بینی کا ذوق رکھنے والے اور اس ذوق کو عملی سرگرمیوں کا جامہ پہنانے والے کئی زندگیاں جیتے ہیں اور عالم کے تمام گوشوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہی لوگ فطرت کی جانب سے عطا شدہ اس نعمت سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور اپنی حیات کی کشتی کو صحیح رخ پر موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسلاف کی حیات کا اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مطالعہ کا ذوق ان کی رگ رگ میں کس قدر سرایت کیے ہوئے تھا۔
امام علامہ زمخشری لکھتے ہیں: مطالعہ کے لیے راتوں کو جاگنا مجھے حسین دوشیزہ کے وصل سے زیادہ عزیز ہے، کسی مشکل فقہی مسئلہ کے حل پر میرا جھومنا مجھے ساقی کے جامِ شراب سے زیادہ محبوب ہے، کاغذ کے اوراق پر میرے قلم کے چلنے کی آواز مجھے عشق و محبت سے زیادہ پسند ہے، نوخیز لڑکی کے دف بجانے کی کھنک سے زیادہ مجھے اپنی کتابوں سے غبار جھاڑنے کی آواز خوبصورت لگتی ہے۔
کتب بینی کا ذوق ہی ہے جس نے قوموں کو علامہ اور باشعور و ذی فہم افراد عطا کیے۔ کتب بینی نے ماضی کے کارناموں کو زندہ رکھنے کا شعور دیا۔ کتب بینی کی عادت انسان کی آگہی میں اضافہ کرتی ہے اور اس کے شعور کو نئی جہت عطا کرتی ہے۔ کتب بینی کے ذریعے انسان پر فطرت کے رازہائے سربستہ منکشف ہوتے ہیں۔ اس کی اپنی ذات سے آشنائی ہوتی ہے۔
نیز متعدد و متنوع افکار و تخیلات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ کتب بینی انسان کو عہدِ حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کا ہنر سکھاتی ہے۔ کتابوں کی سیاحت انسان کو اعلیٰ ذہنیت کے حامل داناؤں، مفکروں، ادیبوں، شاعروں اور مایہ ناز شخصیات سے ہم کلام کرتی ہے اور یہ ہم کلامی ذہنوں پر لگی جہالت کی زنگ کو علم کی روشنی سے دھونے کا کام کرتی ہے نیز قوتِ ارتکاز کی صلاحیت کو ابھارنے اور کردار سازی میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لایعطیک العلم بعضہ حتی تعطیہ کلک۔ (الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب البغدادی)
علم اُس وقت تک تمہیں اپنا کچھ حصہ بھی عطا نہیں کرے گا جب تک تم اپنا سب کچھ علم کے لیے وقف نہیں کر دو۔
کتب بینی کی اہمیت پر امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا یہ قول حکمت کا وہ دریا ہے جس کے موتی آبِ زر سے بھی زیادہ قیمتی ہیں اور بصیرت کی وہ شمع ہے جو رہتی دنیا تک علم کے متلاشیوں کو روشنی دکھاتی رہے گی۔
جو اصل علم ہے وہ کتابوں کے اندر ہے اور حضرتِ انسان کی عظمت اور کائنات پر اس کی فتوحات کا راز علم میں پوشیدہ ہے۔ علم ہی کے باعث انسان زمین کی گہرائیوں میں جھانکتا اور سمندر کی تہوں کو بے نقاب کرتا اور کائنات کے ذرے ذرے میں مخفی حیرت انگیز اسرار و رموز کی نقاب کشائی کرتا ہے۔
لیکن اگر ہم عصرِ حاضر کا جائزہ لیں تو کتب بینی کی عادت ختم ہوتی ہوئی نظر آئے گی۔ کتابوں سے عشق و محبت اور لگاؤ کا جذبہ رفتہ رفتہ رو بہ زوال ہے۔ کتابوں میں لوگوں کا انہماک کم ہوتا جا رہا ہے۔
اور بلا شک و شبہ کتب بینی کا زوال نہایت ہی تشویشناک صورتحال اور ایک ایسی خاموش وبا ہے جو شعور و آگہی کے چراغوں کو بجھا رہی ہے اور تہذیب و تمدن کے مضبوط و مستحکم قلعے کی بنیادیں کھوکھلی کر رہی ہے۔ کیوں کہ کتابیں ہی علم و حکمت، شعور و آگہی اور تہذیب و تمدن کی امین ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
یہ اس وقت کہا تھا جب دیکھا کہ مسلمانوں کا علمی اور ثقافتی خزانہ یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہے اور مغربی دنیا اس سے استفادہ حاصل کر رہی ہے۔ وہ کتابیں جو ہمارے اسلاف نے لکھیں ان سے استفادہ حاصل کرنے کے حقدار ہم سے زیادہ اور کون ہیں؟ مگر ہم اپنے اس ورثے سے بے اعتنا ہیں اور اسی بے اعتنائی کے باعث ہم نے اپنی ترقی اور وقار دونوں کو کھو دیا ہے۔
اگر اس زوال کے اسباب کی بات کریں تو جو سبب سر فہرست ہے وہ موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہے جس نے انسان کے ذہن پر قبضہ کر کے اسے کتابوں کی طرف التفات سے محروم کردیا ہے۔
کہنے کو تو انٹرنیٹ نے انسان کے لیے وہ ساری آسانیاں اور سہولتیں مہیا کر دی ہیں جس کے حصول میں اسے محنت و مشقت کی ضرورت پڑتی۔ اور ہر چند کہ زمانہ اپنی بڑھتی ہوئی رفتار کے ساتھ بے شمار وسعتوں اور ترقیات کو سمیٹے ہوئے ہے اور معاملات میں آسانیاں ان وسعتوں کی ہی مرہونِ منت ہیں، مگر اس بے پناہ ترقیات کے منفی اثرات بھی لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہوئے۔ ان چکاچوند ترقیوں اور سہولتوں کے باعث انسان کا رشتہ قدیم روایتوں سے ٹوٹتا جا رہا ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ موبائل میں دنیا جہان کی باتیں موجود ہیں مگر کتابوں کا لمس اور کتب بینی میں جو لذت و طرب ہے وہ کہیں اور نہیں مل سکتی۔ کتب بینی کا ذوق آشنا ہزار سہولیات کے باوجود کبھی بھی اس کے غیر کی طرف التفات نہیں کر سکتا۔
کتب بینی کے زوال کا دوسرا سبب مدارس و جامعات میں طلبا کو مطالعہ کی طرف رغبت دلانے کا فقدان ہے۔ عموماً ہمارے تعلیمی ادارے، بالخصوص مدارس و جامعات اپنی تمام تر توجہ طلباء کی صرف ان کتابوں تک محدود رکھتے ہیں جو ان کے مقرر کردہ نصاب کا حصہ ہوتی ہیں۔ نصاب سے باہر کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی طرف طلباء کی توجہ مبذول کرانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی جاتی۔
یہ ایک اہم فریضہ ہے جو اساتذہ کرام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ طلباء کے اذہان کو کتب بینی کی اہمیت سے روشناس کرائیں اور انہیں اس جانب راغب کریں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلباء کو مطالعہ کے ان گنت فوائد سے آگاہ کریں، انہیں بتائیں کہ کتابیں پڑھنا کیوں ضروری ہے اور زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ انہیں مطالعہ کی عادت اپنانے کی ترغیب دیں اور انہیں یہ سمجھائیں کہ کتابیں علم کا نہ صرف ایک ذریعہ ہیں بلکہ ایک بہترین دوست اور رہنما بھی ہیں۔
اسی طرح والدین پر بھی یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں میں چھوٹی عمر سے ہی مطالعہ کی عادت کو پروان چڑھائیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابوں سے جوڑیں، انہیں اچھے اور معلوماتی واقعات پڑھ کر سنائیں اور انہیں کتابیں تحفے میں دیں۔
والدین کو اپنے گھروں میں ایک چھوٹی سی ہی سہی، ایک ایسی جگہ ضرور بنانی چاہیے جہاں مختلف قسم کی کتابیں موجود ہوں تاکہ بچے ان کتابوں کو دیکھیں، انہیں چھوئیں اور ان کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں۔ کتابوں کی قربت کا یہ تجربہ بچوں کے دلوں میں مطالعہ کے لیے ایک فطری کشش پیدا کرے گا اور انہیں زندگی بھر کے لیے ایک بہترین مشغلہ اور علم کا ساتھی فراہم کرے گا، ان شاء اللہ۔
کتب بینی کے انمول فوائد
- اگر آپ اپنی حیات کے اصل حسن سے روشناس ہونا چاہتے ہیں تو کتابیں پڑھیں۔
- قوتِ حافظہ تیز کرنا چاہتے ہیں تو کتابیں پڑھیں اپنی گفتار میں شیرینی اور مٹھاس پیدا کرنا چاہتے ہیں تو کتابیں پڑھیں۔
- اپنے مشاہدے کو وسعت دینا چاہتے ہیں تو کتابیں پڑھیں اپنے مافی الضمیر کو احسن طریقے سے ادا کرنے کے خواہاں ہیں تو کتابیں پڑھیں۔
- اپنی گفتگو سے لوگوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں تو کتابیں پڑھیں اگر آپ اپنی تخلیقی لیاقتوں کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں تو کتابیں پڑھیں۔
- بحرِ علم کے غواصوں میں اپنا نام درج کروانا چاہتے ہیں تو کتابیں پڑھیں۔
- اگر دین کی خدمت کا جذبہ آپ کے سینے میں موجزن ہے تو کتابیں پڑھیں۔
الحاصل، پڑھیں اور خوب پڑھیں یہاں تک کہ پڑھنے کا حق ادا ہوجائے۔
سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر